اتوار، 30 دسمبر، 2012

دسمبر کے مہینے کا وہ شاید آخری دن تھا


دسمبر کے مہینے کا وہ شاید آخری دن تھا
گذشتہ سال میں نے
محبت لفظ لکھا تھا
کسی کاغذ کے ٹکڑے پر
اچانک یاد آیا ہے
گذشتہ سال میں مجھ کو
کسی سے بات کرنی تھی
اسے کہنا تھا جانِ جاں
مجھے تم سے محبت ہے
مگر میں کہہ نہیں پایا
وہ کاغذ آج تک لپٹا پڑا ہے دُھول میں لیکن
کسی کو دے نہیں پایا
دسمبر پھر کے آیا ہے
دسمبر پھر کے جائے گا
دوبارہ چاہ کر بھی میں
محبت کر نہیں پایا

آپ اپنا غبار تھے ہم تو

آپ اپنا غبار تھے ہم تو
یاد تھے یادگار تھے ہم تو

پردگی! ہم سے کیوں رکھا پردہ
تیرے ہی پردہ دار تھے ہم تو

وقت کی دھوپ میں تمہارے لیے
شجرِ سایہ دار تھے ہم تو

اُڑتے جاتے ہیں دھُول کے مانند
آندھیوں پر سوار تھے ہم تو

ہم نے کیوں خود پہ اعتبار کیا
سخت بے اعتبار تھے ہم تو

شرم ہے اپنی بار باری کی
بے سبب بار بار تھے ہم تو

کیوں ہمیں کر دیا گیا مجبور
خود ہی بے اختیار تھے ہم تو

تم نے کیسے بُلا دیا ہم کو
تم سے ہی مستعار تھے ہم تو

خوش نہ آیا ہمیں جیے جانا
لمحے لمحے پہ بار تھے ہم تو

سہہ بھی لیتے ہمارے طعنوں کو
جانِ من جاں نثار تھے ہم تو

خود کو دورانِ حال میں اپنے
بے طرح ناگوار تھے ہم تو

تم نے ہم کو بھی کر دیا برباد
نادرِ روزگار تھے ہم تو

ہم کو یاروں نے یاد بھی نہ رکھا
جون یاروں کے یار تھے ہم تو

بدھ، 26 دسمبر، 2012

ہمہ وقت رنج و ملال کیا، جو گزر گیا سو گزر گیا

ہمہ وقت رنج و ملال کیا، جو گزر گیا سو گزر گیا
اُسے یاد کر کے نہ دل دُکھا، جو گزر گیا سو گزر گیا

نہ گلہ کیا نہ خفا ہوئے، یونہی راستے میں جُدا ہوئے
نہ تُو بے وفا نہ میں بے وفا، جو گزر گیا سو گزر گیا

وہ غزل کی ایک کتاب تھا، وہ گُلوں میں ایک گلاب تھا
ذرا دیر کا کوئی خواب تھا ، جو گزر گیا سو گزر گیا

مجھے پت جھڑوں کی کہانیاں ،نہ سنا سنا کر اداس کر
تُو خزاں کا پھول ہے مُسکرا ، جو گزر گیا سو گزر گیا

وہ اُداس دھوپ سمیٹ کر، کہیں وادیوں میں اُتر چکا
اُسے اب نہ دے میرے دل صدا، جو گزر گیا سو گزر گیا

یہ سفر بھی کتنا طویل ہے، یہاں وقت بھی کتنا قلیل ہے
کہاں لوٹ کر کوئی آئے گا، جو گزر گیا سو گزر گیا

وہ وفائیں تھیں یا جفائیں تھیں، یہ نہ سوچ کس کی خطائیں تھیں
وہ تیرا ہے اُس کو گلے لگا ، جو گزر گیا سو گزر گیا

تجھے اعتبار و یقیں نہیں، نہیں دنیا اتنی بُری نہیں
نہ ملال کر میرے ساتھ آ ، جو گزر گیا سو گزر گیا

صیّاد تو امکان سفر کاٹ رہا ہے

صیّاد تو امکان سفر کاٹ رہا ہے
اندر سے بھی کوئی مرے پر کاٹ رہا ہے

اے چادر منصب، ترا شوقِ گلِ تازہ
شاعر کا ترے دستِ ہُنر کاٹ رہا ہے

جس دن سے شمار اپنا پناہگیروں میں ٹہرا
اُس دن سے تو لگتا ہے کہ گھر کاٹ رہا ہے

کس شخص کا دل میں نے دُکھایا تھا، کہ اب تک
وہ میری دعاؤں کا اثر کاٹ رہا ہے

قاتل کو کوئی قتل کے آداب سکھائے
دستار کے ہوتے ہوئے سر کاٹ رہا ہے

کاش میں تیرے بن گوش کا بندا ہوتا


کاش میں تیرے بن گوش کا بندا ہوتا
رات کو بے خبری میں جو مچل جاتامیں
تو ترے کان سے چپ چاپ نکل جاتا میں
صبح کو گرتے تری زلفوں سے جب باسی پھول
میرے کھو جانے پہ ہوتا ترا دل کتنا ملول
تو مجھے ڈھونڈتی کس شوق سے گھبراہٹ میں
اپنے مہکے ہوئے بستر کی ہر اک سلوٹ میں
جونہی کرتیں تری نرم انگلیاں محسوس مجھے
ملتا اس گوش کا پھر گوشہ مانوس مجھے
کان سے تو مجھے ہر گز نہ اتارا کرتی
تو کبھی میری جدائی نہ گوارا کرتی
یوں تری قربت رنگیں کے نشے میں مدہوش
عمر بھر رہتا مری جاں میں ترا حلقہ بگوش
کاش میں تیرے بن گوش کا بندا ہوتا

کوئی محرم راز نی مل دا

کیا حال سناواں دل دا
کوئی محرم راز نی مل دا

منہ دُھوڑ ، مٹی سِر پایُم۔ سارا ننگ نمُوذ ونجایُم
کوئی پُچھن نہ ویہڑے آیا، ہتھوں اُلٹا عالم کِھلدا
کوئی محرم راز نی مِلدا

آیا بار برہوں سر بھاری, لگی ہو ، ہو شہر خواری
اونجیں عمر گزاریُم ساری، نہ پایُم ڈس منزل دا
کوئی محرم راز نی ملدا

 دل یار کیتے کُر لاوے, تڑ پھاوے تے غم کھاوے
ڈکھ پاوے سول نبھاوے, ایہو طور تیڈے بیدل دا
کوئی محرم راز نی ملدا


کئی سہنس طبیب کماون, سے پڑیاں جھول پلاون
میڈے دلا دا بھید نہ پاون, پووے فرق نہیں ہک تِل دا
کوئی محرم راز نی ملدا

پُنوں ہود نہ کھڑ مکلایا۔ چھڈ کلھڑی کیچ سدھایا
سوہنے جان، پچھان بھلایا، کُوڑا عذر نبھایُم گِھل دا
کوئی محرم راز نی ملدا

سن لیلیٰ دیہانہہ پکارے, تیڈا مجنوں زار نزارے
سوہنا یار تو نے ہک وارے, کڈیں چا پردہ محمل دا
کوئی محرم راز نی ملدا

دل پریم نگر دوں تانگھے، جتھاں پینڈے سخت اڑانگے
نہ یار فرید ؔ نہ لانگھے، ہے پندھ بہوں مشکل دا
کوئی محرم راز نی ملدا

گلی قاسم

گلی قاسم میں آکر
تمہاری ڈیوڑھی پر رک گیا ہوں مرزا نوشہ
تمہیں آواز دوں پہلے۔۔۔ ۔۔۔ ۔
چلی جائیں ذرا پردے میں امراؤ
تو پھر اندر قدم رکھوں
چلمچی، لوٹا، سینی اٹھ گئے ہیں
برستا تھا جو دو گھنٹے کو مینہ، چھت چار گھنٹے تک
برستی تھی
اسی چھلنی سی چھت کی اب مرمت ہورہی ہے
صدی سے کچھ زیادہ وقت آنے میں لگا
افسوس ہے مجھ کو
اصل میں گھر کے باہر کوئلوں کے ٹال کی سیاہی لگی تھی
وہ مٹانی تھی


اسی میں بس کئی سرکاریں بدلی ہیں تمہارے گھر پہنچنے میں
جہاں کلن کو لے کر بیٹھتے تھے، یاد ہے ؟
بالائی منزل پر ؟
لفافے جوڑتے تھے تم لیئی سے
خطوں کی کشتیوں میں اردو بہتی تھی
اچھوتے ساحل اردو نثر چھونے لگ گئی تھی
وہیں بیٹھے گا کمپیوٹر
وہاں سے لاکھوں خط بھیجا کرے گا
تمہارے دستخط جیسے، وہ خوشخط تو نہیں ہوں گے
مگر پھر بھی
پرستاروں کی گنتی بھی اسد، اب تو کروڑوں میں ہے
تمہارے ہاتھ کے لکھے ہوئے صفحات رکھے جارہے ہیں
تمہیں تو یاد ہوگا
مسودہ جب رام پور سے، لکھنو سے، آگرہ سے
گھوما کرتا تھا
شکایت تھی تمہیں، یارب نہ سمجھیں ہیں نہ سمجھیں گے وہ میری بات
انہیں دے اور دل یا مجھ کو زباں اور


(یارب وہ نہ سمجھے ہیں، نہ سمجھیں گے میری بات
دے اور دل ان کو، جو نہ دے مجھ کو زباں اور)

زمانہ ہر زباں میں پڑھ رہا ہے اب، تمہارے سب سخن غالب
(نوشہ)
سمجھتے کتنا ہیں ، یہ تو وہی سمجھیں یا تم سمجھو
یہیں شیشوں میں لگوائے گئے ہیں
پیرہن اب کچھ تمہارے
ذرہ سوچو تو قسمت چار گرہ کپڑے کی اب غالب
کہ تھی قسمت یہ اس کپڑے کی ، غالب کا گریباں تھا
تمہاری ٹوپی رکھی ہے
جو اپنے دور سے اونچی پہنتے تھے
تمہارے جوتے رکھے ہیں
جنہیں تم ہاتھ میں لے کر نکلتے تھے
شکایت تھی کہ سارے گھر کو ہی مسجد بنا رکھا ہے بیگم نے
تمہارا بت بھی اب لگوادیا ہے اونچا قد دے کر
جہاں سے دیکھتے ہو اب تو سب بازیچہء اطفال لگتا ہے
سبھی کچھ ہے مگر نوشہ( غالب(
اگرچہ جانتا ہوں ہاتھ میں جنبش نہیں بت کے
تمہارے سامنے اِک ساغر و مینا تو رکھ دیتے
بس اِک آواز ہے جو گونجتی رہتی ہے اب گھر میں
نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

نقابت

اےرب کائنات بڑی دیر ہو گئی
اک چشم التفات بڑی دیر ہو گئی
محروم ایک نگاہ کرم نقش پر الم
ہاں مالک کائنات بڑی دیر ہو گئی

عرش بریں سے جب تھادعاؤں کا رابطہ
آئی تھی لب پہ بات بڑی دیر ہو گئی
ہر شے میں تیرا حسن قدامت لیے ہوئے
لیکن وہ شرف ذات بڑی دیر ہو گئی

اک گوشہء نقاب اٹھایا تھا طور پر
جانے تجلیات بڑی دیر ہو گئی
دن بھی ہے ظلمتوں کی لپیٹے ہوئے ردا
ہے آس پاس رات بڑی دیر ہو گئی

حاصل نہیں ہے ایک بھی لمحہ حیات کا
ہے مضطرب حیات بڑی دیر ہو گئی
یہ اور بات ہے کہ تو ہے مائل بہ کرم
ہے ساعت مشکلات بڑی دیر ہو گئی

رہتا تھا ساتھ ساتھ ہجوم التجاؤں کا
تازہ ہیں باقیات بڑی دیر ہو گئی
اے رب کائنات بڑی دیر ہو گئی
اے رب کائنات بڑی دیر ہو گئی

بیٹے کو سزا دے کے عجب حال ہوا ہے

بیٹے کو سزا دے کے عجب حال ہوا ہے
دل پہروں مرا کرب کے دوزخ میں جلا ہے

عورت کو سمجھتا تھا جو مردوں کا کھلونا
اس شخص کو داماد بھی ویسا ہی ملا ہے

ہر اہل ہوس جیب میں بھر لایا ہے پتھر
ہمسا ئے کی بیری پہ ابھی بور پڑا ہے

اب تک میرے اعصاب پہ محنت ہے مسلط
اب تک میرے کانوں میں مشینوں کی صدا ہے

اے رات !مجھے ماں کی طرح گود میں لے لے
دن بھر کی مشقت سے بدن ٹوٹ رہا ہے

شاید میں غلط دور میں اترا ہوں زمیں پر
ہر شخص تحیر سے مجھے دیکھ رہا ہے

اطراف میں باریش بزرگوں کا ہے پہرا
اور بیچ میں سہما ہوا تنویر کھڑا ہے

اظہار

پتھر کی طرح اگر میں چپ رہوں
تو یہ نہ سمجھ کہ میری ہستی
بیگانہ ء شعلہ ِ وفا ہے
تحقیر سے یوں نہ دیکھ مجھ کو
اے سنگ تراش!تیرا تیشہ
ممکن ہے کہ ضرب ِ اولیں سے
پہچان سکے کہ میرے دل میں
جو آگ تیرے لیئے دبی ہے
وہ آگ ہی میری زندگی ہے

خدا

خدا - ۱

بُرا لگا تو ہوگا اے خُدا تجھے 
دُعا میں جب 
جمائی لے رہا تھا مَیں
دُعا کے اِس عمل سے تھک گیا ہوں میں 
میں جب سے دیکھ سُن رہا ہوں 
تب سے یاد ہے مجھے
خُدا جلا بجھا رہا ہے رات دن 
خُدا کے ہاتھ میں ہے سب بُرا بھلا 
دُعا کرو
عجیب ساعمل ہے یہ 
یہ ایک فرضی گفتگو
اور ایک طرفہ…….. ایک ایسے شخص سے 
خیا ل جس کی شکل ہے 
خیال ہی ثبوت ہے

====================

خدا۔٢

مَیں دیوار کی اِس جانب ہوں
اِس جانب تو دُھوپ بھی ہے، ہریالی بھی 
اوس بھی گرتی ہے پتوں پر
آجائے تو، آلسی کہرہ 
شاخ پہ بیٹھا، گھنٹوں اونگھتا رہتا ہے 
بارش لمبی لمبی تاروں پر نٹنی کی طرح تھرکتی آنکھ سے گم ہو جاتی ہے 
جو موسم آتا ہے، سارے رَس دیتا ہے 
لیکن اِس کچی دیوار کی دوسری جانب
کیوں ایسا سنّاٹا ہے 
کون ہے جو آواز نہیں کرتا لیکن 
دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھا رہتا ہے

====================

خدا۔٣

پچھلی بار ملا تھا جب میں
ایک بھیانک جنگ میں کچھ مصروف تھے تم
نئے نئے ہتھیاروں کی رونق سے کافی خوش لگتے تھے 
اس سے پہلے انتولہ میں 
بُھوک سے مرتے بچوں کی لاشیں دفناتے دیکھا تھا 
اور اِک بار …….. ایک اور ملک میں زلزلہ دیکھا
کچھ شہروں کے شہر گرا کے دوسری جانب لوٹ رہے تھے 
تم کو فلک سے آتے بھی دیکھا تھا میں نے 
آس پاس کے سیّاروں پر دُھول اُڑاتے 
کود پھلانگ کے دوسری دنیاؤں کی گردش
توڑنا کے " گیلکسیز" کے محور تم 
جب بھی زمیں پر آتے ہو
پھونچال چلاتے اور سمندر کھولاتے ہو
بڑے اِیریٹک سے لگتے ہو
کائنات میں کیسے لوگوں کی صحبت میں رہتے ہو تم

====================

خدا۔٤

پورے کا پورا آکاش گھما کر بازی دیکھی میں نے 

کالے گھر میں سُورج رکھ کے 
تم نے شاید سوچا تھا میرے سب مُہرے پٹ جائیں گے 
مَیں نے ایک چراغ جلا کر
اپنا رستہ کھول لیا 
تم نے ایک سمندر ہاتھ میں لے کر مجھ پر انڈھیل دیا 
مَیں نے نوح کی کشتی اُس کے اوپر رکھ دی 

کال چلا تم نے ، اور میری جانب دیکھا
میں نے کال کو توڑ کے لمحہ لمحہ جینا سیکھ لیا 
میر ی خود کو تم نے چند چمتکاروں سے مارنا چاہا
میرے اِک پیادے نے تیرا چاند کا مُہرہ مار لیا
موت کی شہہ دے کر تم نے سمجھا تھا اب تو مات ہوئی
 مَیں نے جسم کا خول اُتار کے سونپ دیا …….. اور رُوح بچالی

پورے کا پورا آکاش گھما کر اب تم دیکھو بازی

بڑا احسان ہم فرما رہے ہیں

بڑا احسان ہم فرما رہے ہیں
کہ انکے خط انہیں لوٹا رہے ہیں

نہیں ترک محبت پر وہ راضی
قیامت ہے کہ ہم سمجھا رہے ہیں

یقیں کا راستہ طے کرنے والے
بہت تیزی سے واپس آ رہے ہیں

یہ مت بھولو کہ یہ لمحات ہم کو
بچھڑنے کے لئے ملوا رہے ہیں

تعجب ہے کہ عشق و عاشقی سے
ابھی تک لوگ دھوکا کھا رہے ہیں

تمہیں چاہیں گے جب چھن جاؤ گی تم
ابھی ہم تم کو ارزاں پا رہے ہیں

کسی صورت انہیں نفرت ہو ہم سے
ہم اپنے عیب خود گنوا رہے ہیں

وہ پاگل مست ہے اپنی وفا میں
مری آنکھوں میں آنسو آ رہے ہیں

دلیلوں سے اسے قائل کیا تھا
دلیلیں دے کے اب پچھتا رہے ہیں

تری بانہوں سے ہجرت کرنے والے
نئے ماحول میں گھبرا رہے ہیں

یہ جذبۂ عشق ہے یا جذبۂ رحم
ترے آنسو مجھے رلوا رہے ہیں

عجب کچھ ربط ہے تم سے کہ تم کو
ہم اپنا جان کر ٹھکرا رہے ہیں

وفا کی یادگاریں تک نہ ہوں گی
مری جاں بس کوئی دن جا رہے ہیں

ہفتہ، 22 دسمبر، 2012

کچھ روز سے وہ سنجیدہ ہے


کچھ روز سے وہ سنجیدہ ہے
ہم سے کچھ کچھ رنجیدہ ہے

چل دِل کی راہ سے ہوکے چلیں
دلچسپ ہے اور پیچیدہ ہے

ہم عمر خُدا ہوتا کوئی
جو ہے، وہ عمر رسیدہ ہے

بیدار نہیں ہے کوئی بھی
جو جاگتا ہے، خوابیدہ ہے

ہم کس سے اپنی بات کریں
ہر شخص تیرا گرویدہ ہے

اتوار، 16 دسمبر، 2012

اِک الف پڑھو، چھٹکارا اے


اِک الف پڑھو، چھٹکارا اے
صرف اللہ کو اک جاننا ہی کافی ہے۔ یہ ایمان باقی سب سے رہائی دیتا ہے

اِک الفوں دو تِن چار ہوے
فر لکھ، کروڑ، ہزار ہوے
فر اوتھوں باجھ شمار ہوے
ایس الف دا نکتہ نیارا اے
اگرآپ اس عقیدے سے آگے نکلتے ہیں۔ تو بات پھر دو، تین چار سے ہوتی لاکھوں کروڑوں تک پہنچتی ہے۔اور یہی اس "الف" کی عمیق رمز ہے۔ میری نظرمیں بلہے شاہ نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جو اس در کا بھکاری نہیں رہتا وہ پھر در در کا بھکاری بنتا ہے۔ بقول حضرت سلطان باہو
جنہاں حق نہ حاصل کیتا دوہیں جہانیں اُجڑے ہُو
غرق ہوئے وچ وحدت باہو ویکھ تِنہاں دے مُجرے ہُو


کیوں ہویائیں شکل جلاداں دی
کیوں پڑھنائیں گڈھ کتاباں دی
سر چانائیں پنڈ عذاباں دی
اگے پینڈا مشکل بھارا اے
کیوں چہرے پر علمیت کا رعب سجائے دوسروں پر تحقیری نگاہ ڈالتے ہو۔ کیوں کتابوں کو دماغ اندر سمو کر اپنے آپ کو عالم سمجھ بیٹھے ہو۔ یہ تو عذاب ہے۔ تم اس سے بچو۔ کیوں کہ آگے آنے والی راہ بہت کٹھن ہے۔ اور اسقدر وزن کے ساتھ تم اس پر نہ چل پاؤ گے۔

بن حافظ حفظ قرآن کریں
پڑھ ھڑھ کے صاف زبان کریں
پر نعمت وچ دھیان کریں
من پھردا دیوں ہلکارا اے
حافظ بنکر اتراتے ہو۔ رٹ رٹ کر بنا معانی جانے تمہاری اس کو پڑھنے کی روانی بھی قابل دید ہے۔ تم اک قاصد کی مانند اسکو لیئے پھرتے ہو۔ اسکو سمجھنے سے قاصر ہو۔ یہاں پر اک بڑا لطیف نقطہ قاصد کی تشبیہ کا ہے۔ کہ جیسے قاصد خط لے کر پہنچا دیتا ہے۔ پر وہ خط کے اندر کی عبارت سے ناآشنا ہوتا ہے۔ تو حافظ قرآن بھی حفظ کر کے ساری عمر دوسروں کو تو سنا رکھتا ہے۔ مگر اس کے اصل مفہوم سے ناآشنا رہتا ہے۔ بلہے شاہ فرماتے ہیں کہ اس نعمت کے اندر دھیان کی ضرورت ہے۔ نہ کے اس کو محض رتبے کے لیئے استعمال کیا جائے۔

اِک الف پڑھو، چھٹکارا اے

عشق بلے نوں نچاوے یار تے نچنا پیندا اے


مرنڑ کولوں مینوں روک نہ ملّا مرنڑ دا شوق مٹاون دے
کنجری بنیا عزت نہ گھٹدی نچ کے یار مناون دے
مل جاوے دیدار تے نچنا پیندا اے
سامنڑے ہووے یار تے نچنا پیندا اے
عشق بلہے دے اندر وڑیا پانبڑ اندر مچدا
عشق دے گھنگرو پا کے بلہا یار دے ویڑے نچیا
عشق بلے نوں نچاوے یار تے نچنا پیندا اے
جدوں مل جاوے دیدار تے نچنا پیندا اے
بُلہا پُلیا پیر ولوں جدوں دل وچ حیرت آئی
کیسا ڈھنگ ملن دا کراں جد ہووے رسوائی
پا لباس طوائفاں والا پہلی چانجر پائی
کنجری بنیا عزت نہ گھٹدی او نچ کے یار منائیں
عشق بلے نوں نچاوے یار تے نچنا پیندا اے
سامنڑے ہووے یار تے نچنا پیندا اے

آ مل یارا سار لے میری

آ مل یارا سار لے میری
میری جان دُکھاں نے گھیری
اے میرے دوست میری خبر گیری کو آؤ کہ میری جان غموں کے درمیان گھری ہوئی ہے
انسان جب خود کو بے بس محسوس کرتا ہے تو ایسے میں اسے رب کائنات کے علاوہ کوئی غمگسار نظر نہیں آتا۔ وہ بے اختیار اپنے رب کی طرف پلٹتا ہے۔ کہ اللہ اب غموں کے اس پہاڑ نے جینا مشکل کر دیا ہے۔ اور تیری ہی ذات واحد ہے جو مجھے ان سے چھٹکارا دلا سکتی ہے

اندر خواب وچھوڑا ہویا، خبر نہ پیندی تیری
سنجی، بن وچ لُٹی سائیاں، چور شنگ نے گھیری
میرے خواب و خیال پر جدائی نےقبضہ کر رکھا ہے۔ اور تمہاری کوئی خیر خبر نہیں
سنسان ویران جنگل میں مجھے لوٹا گیا اور چوروں، ڈاکؤوں نے مجھے گھیر رکھا ہے
انسان جب کسی بھی مہم پر نکلتا ہے تو انجان راستے پر بار بار اسے رہنمائی کے لیئے راستے کے لوگوں پر اعتبار کرنا پڑتا ہے۔ راستہ سمجھنا پڑتا ہے۔ مگر کچھ لوگ فریب منزل دے کر راہ سے بھٹکا دیتے ہیں۔ اور تمیز کرنا مشکل ہوتا چلا جاتا ہے کہ اب کس پر اعتبار کیا جائے اور کس پر نہیں۔ کچھ رہنما تو اسقدر دھوکا دیتے ہیں کہ انسان خالی ہاتھ رہ جاتا ہے۔ اور اسے نئے سرے سے قصد سفر باندھنا پڑتا ہے۔ یہ راستے کے مصائب مصائب نہیں آزمائشیں ہیں۔ تو جو ان آزمائشوں اور مصائب کے فرق کو سمجھ جاتا ہے۔ کامیابی کیطرف گامزن رہتا ہے۔

ملاں قاضی راہ بتاون، دین بھرم دے پھیرے
ایہہ تاں ٹھگ جگت دے جھیور، لاون جال چوفیرے
ملا اور قاضی مجھے ایسا راستہ بتاتے ہیں جو مجھے دین کے احکامات میں الجھائے جاتا ہے
یہ زمانے کے مشہور ٹھگ چڑی ماروں کی طرح چاروں طرف جال بننے میں مصروف ہیں
اب مسافر پر لازم ہے کہ وہ کھرے کھوٹے کو خوب سمجھے۔ ملا اک استعارہ ہے ان کے متعلق جو دین کے پیچیدہ مسائل کا درک نہیں رکھتے اور لکیر کے فقیر رہتے ہیں۔ ایسے لوگ مفہوم کو نت نئے کپڑے پہنا کر انسان کو عقائد کے گنجلک مسائل میں یوں الجھا دیتے ہیں کہ مقصد مطلق ذہن کے گوشوں سے رخصت ہو جاتا ہے۔ اور زندگی ان لوگوں کے بیان کردہ مسائل کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے میں ہی گذر جاتی ہے۔ بلہے شاہ نے ان ٹھگوں کو شکاریوں بلکہ چڑی ماروں سے تشبیہ دی ہے۔ جن کا کام بس جال لگا کر چڑیاں پکڑنا ہوتا ہے۔

کرم شرع دے دھرم بتاون، سنگل پاون پیریں
ذات مذہب ایہہ عشق نہ پچھدا، عشق شرع دا ویری
یہ شریعت میں موجود رعائیتوں کو ایمان کو جزو لازم بتا کر پیروں میں عقائد کی موٹی موٹی زنجیریں باندھ رہے ہیں
جبکہ عشق ذات اور مذہب سے بالاتر ہے اور اسکی شرع کے اس طریق سے دشمنی ہے
اسی تسلسل میں بات جاری ہے کہ یہ لوگ دین میں موجود رعائیتوں کو جزو لازم قرار دے کر معصوم اور انجان لوگوں کو یوں گھیر لیتے ہیں کہ وہ عقائد اور گناہ و ثواب کی زنجیروں میں پھنسے باقی کی زندگی نیکیاں گننے میں گزار دیتے ہیں۔ ان کے یہ جال اسقدر مضبوط اور کامل ہیں کہ اک بار پیروں میں پڑ جائیں تو ان سے نجات آسان نہیں۔ جبکہ اصل میں طریقت پر چلنے والے ان تمام باتوں سے بے نیاز ہیں۔ ان کو ذات، مسند کا لالچ نہیں ہوتا اور نہ وہ منصب پر فخر کرتے ہیں۔ انکے نزدیک کسی کی منصبیت اور علم وجہ تفاخر نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ناسمجھ لوگ اس طریق کو شرع کے متصادم سمجھتے ہیں۔

ندیوں پارملک سجن دا، لہر لوبھ نے گھیری
ستگوربیڑی پھڑی کھلوتے، تیں کیوں لائی دیری
محبوب کو ٹھکانہ ندی کے اس پار ہے جبکہ مجھے طمع و ہوس کی ہوا نے گھیر رکھا ہے
مرشد مجھے اس پار پہنچانے کے لیئے کوشاں ہے اور میں دیر کیئے جا رہا ہوں
محبوب کا ٹھکانہ ندی کے اس پار ہے سے مراد سرزمین پاک ہے اور درمیان میں سمندر حائل ہے۔ ہر مسلم کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ حج کرے مگر یہ عمل ہمارے یہاں وہ زیادہ تر اسوقت سر انجام دیتا ہے جب اسکے بقیہ دنیاوی کام اسکی نظر میں ختم ہونے کو ہوتے ہیں۔ بابا بلہے شاہ نے میری نظر میں اسی طرف طنز کیا ہے کہ سب یہاں حرص و طمع کی لہر میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اللہ کی دی ہوئی ڈھیل کو آخری حد تک استعمال میں لا رہے ہیں۔ اگر اس کیطرف سے پکڑ نہیں تو ضروری نہیں کہ اس کا ناجائز فائدہ اٹھایا جائے۔

بلھا شاہ شوہ تینوں ملسی، دل نوں دے دلیری
پیتم پاس،تے ٹولنا کس نوں، بُھل گیوں شکر دوپہری
بلہے شاہ! مرشد تجھے لازمی ملے گا۔ تو بس ناامید نہ ہو اور اپنے حوصلے کو برقرار رکھ
جب محبوب پاس ہو تو پھر ڈھونڈنا کسے۔ کیوں روشن دوپہر میں پہچان نہیں پا رہے۔
بلہے شاہ تجھے ہدایت ضرور ملے گی۔ بس تجھے یقین کامل کی ضرورت ہے۔ یقین کامل ہی انسان کو اس منزل تک لے جا سکتا ہے۔ اللہ کی ذات پاک تو شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔اسے ڈھونڈنے کے لیئے نہ تو سفر کرنے ہیں نہ کہیں جانا ہے۔ پھر بھی انسان بھولا پھرتا ہے۔ بقول اشتیاق احمد صاحب (من چلے کا سودا) ! کہ بابو لوکا کدھر چلا گیا تھا۔ سفر تو منزلیں طے کرنے کے لیئے ہوتے ہیں۔ کہیں جانا تو ہے ہی نہیں۔ اسے تو یہاں دیکھنا ہے۔ شہ رگ کے پاس۔

نوٹ: یہ ترجمہ و تشریح میری سمجھ کے مطابق ہے۔ جس سے کسی کو بھی اختلاف ہو سکتا ہے۔ لہذا ہر آدمی اپنی سمجھ کے مطابق ترجمہ و تشریح کر سکتا ہے۔ یہ اشعار میری ملکیت ہرگز نہیں ہیں

اٹھ جاگ کھڑاڑے مار نئیں، ایہہ سُوَن ترے درکار نئیں


اٹھ جاگ کھڑاڑے مار نئیں، ایہہ سُوَن ترے درکار نئیں
کتھے ہے سلطان سکندر؟ موت نہ چھڈے پغمبر
سبے چھڈ چھڈ گئے اڈمبر، کوئی ایتھے پائدار نئیں
جو کجھ کر سیں، سو کجھ پاسیں، نئیں تے اوڑک پچھوں تا سیں
سوِنجی کونج ونگوں کرلاسیں، کھنباں باجھ اڈار نئیں
بلھا! شوہ بن کوئی ناہیں، ایتھے اوتھے دوئیں سرائیں
سنبھل سنبھل قدم ٹکائیں، پھیر آوَن دوجی وار نئیں
اٹھ جاگ کھڑاڑے مار نئیں، ایہہ سُوَن ترے درکار نئیں

ترجمہ:
اب اٹھنے کا وقت آ پہنچا ہے اور خراٹے مارنے کا وقت گزر چکا۔ اب تمہاری مزید نیند بیکار ہے۔
اٹھ کو ذرا غور کرو کہ سب سلطان سکندر موت کی نیند سو چکے ہیں۔ موت سے تو پیغمبر بھی مستثنیٰ نہیں ہیں۔
سب غرور کا لبادہ اوڑھنے والے موت کی اندھیرے میں ڈوبے پڑے ہیں۔ سوائے رب کائنات کے ہر چیز کو فنا ہے۔ اب تم جو کرو گے وہی کاٹو گے ورنہ عاقبت میں نامراد رہو گے۔
تنہا کونج کی مانند آہیں بھرو گے۔ کیوں کہ پروں کے بغیر تو اڑان ممکن ہی نہیں ہے۔
بلہے شاہ راستہ دکھانے والا مرشد بہت ضروری ہے۔ اسکے بناء تو دونوں جہانوں میں رسوائی ہے۔
اس ڈگر یعنی دنیا میں بہت سنبھل کر چلنے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ اس راستے سے کسی نے دوبارہ نہ گزرنا ہے۔
اب اٹھ کر عمل کا آغاز کر دو۔ کہ یونہی غفلت میں اس قیمتی وقت سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں ہم لوگ۔

الٹے ہور زمانے آئے، تاں میں بھیت سجن دے پائے


الٹے ہور زمانے آئے، تاں میں بھیت سجن دے پائے
جب میری توقعات کے برعکس کام ہونے لگے تو میں نے سچے رب کو پا لیا۔

کاں لگڑاں نوں ما رن لگے، چڑیاں جُرّے ڈھائے
گھوڑے چگن اوڑیاں تے، گدوں خوید پوائے
کوے زاغ کا شکار کھیلنے لگے ہیں اور چڑیوں نے باز اور شکرے مار گرائے ہیں
گھوڑوں نے گندگی کے ڈھیر چرنا شروع کر دیئے ہیں اور گدھ سر سبز گندم کے کھیتوں میں پھر رہے

آپنیں وچ الفت ناہیں، کی چاچے، کی تائے
پیو پتراں اتفاق نہ کوئی، دھیاں نال نہ مائے
اتحاد و محبت خاندان سے اٹھ گیا ہے اور بھائی بھائی سے بیزار ہے
باپ بیٹے گر آپس میں برسر پیکار ہیں تو ماں بھی بیٹیوں کے ساتھ نہیں ہے

سچیاں نوں پئے ملدے دھکے، جھوٹے کول بہائے
اگلے ہو کنگالے بیٹھے، پچھلیاں فرش بچھائے
سچے لوگ دھتکارے جا رہے ہیں اور جھوٹ بولنے والوں کو عزت و تکریم سے نوازا جا رہا ہے
اسلاف تو بھوک کا شکار ہو گئے جبکہ بعد میں آنے والوں کی خودنمائی اور شان و شوکت کا اظہار قابل دید ہے

بھریاں والے راجے کیتے، راجیں بھیک منگائے
بُلھیا! حکم حضوروں آیا، تِس نوں کون ہٹائے
جو لوگ بوریاں لپیٹ کر سوتے تھے آج بادشاہ بنے پھرتے ہیں اور راجہ لوگ در در کی ٹھوکریں کھا رہے
لیکن بلہے شاہ یہ تو تقدیر کے فیصلے ہیں ان کے آگے سرتابی کی مجال نہیں
اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔