اتوار، 29 دسمبر، 2013

اکھاں دی رکھوالی رکھ از چوہدری محمد علی مضطرؔ

اکھاں دی رکھوالی رکھ
عینک بھانویں کالی رکھ

جِیویں رات ہنیری اے
دل دا دِیوا بالی رکھ

اُتوں راون نچن دے
وِچوں رام دِوالی رکھ

غصہ، گِلہ، کام کرودھ
اینے سپ نہ پالی رکھ

اِکو یار نال یاری لا
دُشمن پینتی چالی رکھ

چناں دل دِیاں گلاں نُوں
گلِیں باتِیں ٹالی رکھ

مضطرؔ! منزل آ پُہجی
جوڑی کھول پنجالی رکھ

جمعہ، 27 دسمبر، 2013

اقتباسات از جون ایلیا

ہمارے ہاں معیار اور مثالیے بہت ہی رکیک اور پست ہیں۔ ہم کسی عالم، ادیب، مفکر، مصنف، قانون داں، شاعر، افسانہ نگار اور سائنس داں کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ ہم نقالوں، لطیفہ گویوں، اداکاروں، مسخروں اور بےہنگام نچنیوں اور گویوں کو اہمیت دیتے ہیں۔ سو ہمیں اپنے انجام اور مقسوم کو سمجھنے میں کوئی الجھن نہیں ہونا چاہیے۔

سسپنس ڈائجسٹ مئی 1996

اقتباسات از جون ایلیا

سن لیا جائے اور سمجھ لیا جائے کہ تاریخ کے خلاف کبھی جنگ نہیں کی جا سکتی اور اگر جنگ کی جائے گی تو شرم ناک ترین شکست کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ تم نے تاریخ کے خلاف جنگ کی اور اپنے اندر اور اپنے باہر شکست کھا گئے۔ جو مستقبل کی طرف قدم نہیں اٹھائے گا وہ ماضی کی طرف بری طرح دھکیل دیا جائے گا۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ علم تھا، دانش تھی۔ حکمت اور عمل کا ایک طویل سلسلہ تھا۔ اس لیے ان کی دھاندلی جیت گئی۔ تمہارے ساتھ ایسا کوئی سلسلہ نہیں تھا، اس لیے تمہاری غلط کاری اور غلط کوشی کو تو سزا یاب ہونا ہی تھا۔ تم بتاؤ، جواب دو کہ ایسا کیوں نہ ہوتا؟ آخر تم نے تاریخ سے ایسا کون سا معاہدہ کیا ہے کہ تم وقت سے ہٹ کر چلو اور وقت تمہیں راستہ دے دے۔ عراق کی شکست جمہوریت کے مقابلے میں آمریت کی شکست ہے۔ علم کے مقابلے میں جہالت کی شکست ہے۔

کیا ہنر کی نقالی ہنر سے جیت سکتی ہے؟ کیا خریدی ہوئی مہارت حقیقی مہارت کا سامنا کر سکتی ہے؟ حیرت ہے کہ ہم یہ بات کیوں نہیں سوچتے اور یہ نقطہ کیوں نہیں سمجھتے؟ ہمیں اس حقیقت کا احساس کیوں نہیں ہوتا کہ ہم ایک ہزار برس سے تاریخ کے دسترخوان پر حرام خوری کے سوا اور کچھ نہیں کر رہے۔

اپریل 1991

جمعرات، 26 دسمبر، 2013

اساں پیڑاں پیڑ کے پیتیاں اساں رنھ کے کھادی اگ

اساں پیڑاں پیڑ کے پیتیاں اساں رنھ کے کھادی اگ
ساڈا ساڑ سمے دیاں سولیاں ساڈے سر سوچاں دی پگ

ساڈا در سورج دا کعبہ ساڈی دھرتی امبروں اگے
سانوں ھونی دیندی لوریاں ساڈے نال نہ چناں لگ

اسیں برفاں چلہے بالدے اسیں بھانبڑ تلدے روز
ساڈا سورج چھاویں بیٹھدا اسیں انجدے لائی لگ

ساڈے قبراں کیرنے پاندیاں ساڈے بوھے نت مکان
اسیں سدھراں مار کے نپ دے سانوں عاشق کہندا جگ

اسیں اج نہیں کل تے پاوندے ساڈی کل دا ناں اے اج
اسیں آپ ٹھگاں نوں ٹھگدے ساڈے ٹھگ چراندے وگ

اسیں جتیاں بازیاں ھار دے اسیں موت نوں دیندے دان
اسیں انجم جگ توں وکھرے ساڈے لہو دا رنگ الگ

بدھ، 25 دسمبر، 2013

موجِ صبا کی پوچھ نہ سفاک دستیاں​

موج صبا کی پوچھ نہ سفاک دستیاں​
ڈوبی ہوئی ہیں خون میں پھولوں کی بستیاں​
مستی ہو یا خمار ہو، کر مے پرستیاں​
بے سود رفعتیں ہیں نہ بیکار پستیاں​
اے دوست کچھ تو سوچ کہ دنیا بدل گئی​
اب اس قدر نہ ہوش نہ اس درجہ مستیاں​
شاید مرے سوا کوئی اس کو سمجھ سکے​
کس طرح اِک نظر سے بدلتی ہیں ہستیاں​
اے کاروان راحت و غم دل ہے وہ مقام​
دن رات جس دیار میں لٹتی ہیں بستیاں​
غم، کشتگانِ عشق سے اتنا نہ کر گریز​
کچھ کام آ رہیں گی یہ بے کار ہستیاں​
آواز پائے ناز کو بھی مدتیں ہوئیں​
سونی پڑی ہیں کب سے ترے غم کی بستیاں​
دونوں سے بے نیاز ہوں، کیا موت کیا حیات​
ہیں رشکِ صد نشاط مری غم پرستیاں​
اس جیبِ تار تار کو خالی نہ جاننا​
بستی ہیں بیخودوں کے گریباں میں بستیاں​
سنتے ہیں حسن درد کی تصویر ہو چلا​
کچھ لا چلی ہیں رنگ مری غم پرستیاں​
کب ہم خیالِ عشق ہوا حسنِ بدگماں​
گو خود پرستیاں تھیں مری حق پرستیاں​
اب یادِ رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی​
یاروں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاں​
اُس کی نگاہِ ناز کی کیا بات ہے فراق​
دامن میں ہوش ہے تو گریباں میں مستیاں​

سر میں سودا بھی نہیں ، دل میں تمنا بھی نہیں

لیکن اس ترکِ محبت کا بھروسا بھی نہیں

یہ بھی سچ ہے کہ محبت پہ نہیں میں مجبور
یہ بھی سچ ہے کہ ترا حسن کچھ ایسا بھی نہیں

مہربانی کو محبت نہیں کہتے اے دوست
آہ اب مجھ سے تری رنجش بے جا بھی نہیں

مدتیں گزریں تری یاد بھی آئی نہ ہمیں
اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں

ہائے وہ رازِ محبت جو چھپائے نہ بنے
ہائے وہ داغِ محبت جو ابھرتا بھی نہیں

آہ یہ مجمع احباب یہ بزمِ خاموشی
آج محفل میں فراقِ سخن آراء بھی نہیں

جمعرات، 19 دسمبر، 2013

موت کی رسم نہ تھی، ان کی ادا سے پہلے

موت کی رسم نہ تھی، ان کی ادا سے پہلے
زندگی درد بنائی تھی، دوا سے پہلے

کاٹ ہی دیں گے قیامت کا دن اک اور سہی
دن گزارے ہیں محبّت میں قضا سے پہلے

دو گھڑی کے لئے میزان عدالت ٹھہرے
کچھ مجھے حشر میں کہنا ہے خدا سے پہلے

تم جوانی کی کشاکش میں کہاں بھول اٹھے
وہ جو معصوم شرارت تھی ادا سے پہلے

دار فانی میں یہ کیا ڈھونڈھ رہی ہے فانی
زندگی بھی کہیں ملتی ہے فنا سے پہلے

اتوار، 15 دسمبر، 2013

اے نیازؔ ! چپکے سے نوٹ جب اسے ایک سو کا تھما دیا

فیض کی روح سے معذرت کے ساتھ

اے نیازؔ ! چپکے سے نوٹ جب اسے ایک سو کا تھما دیا
جسے لوگ کہتے تھے سخت خُو، اُسے موم ہم نے بنا دیا

جو بھی رکن اپنا تھا ہمنوا، اسے کیسا ہم نے صلہ دیا
نہ وزیر کی رہی سیٹ جی، وہ مشیر ہم نے بنا دیا

جو گرانی پھولی، پھلی، بڑھی، اسے ایسے ہم نے شکست دی
کہ وہ مک مکا کا جو ریٹ تھا، وہ کچھ اور ہم نے بڑھا دیا

کہاں مجھ سا پینڈو گنوار اور، کہاں ایک صوبے کی ممبری
یہ تمام زر کا کمال ہے، جو مجھے بھی اس نے جتا دیا

یہ بھی مک مکا کا کمال ہے،  جو اسکول میں مرا لال ہے
جو تھا بارہ سالہ میرا پسر، اسے میں نے چھ کا لکھا دیا

کبھی عشق ہم نے نہیں کیا، نہیں عشق کا ہمیں تجربہ
تھا اگرچہ عشق یہ بارہواں، مگر اس کو پہلا بتا دیا

ہوئے مدحِ باس میں غرق جب تو ہر ایک حد سے گزر گئے
وہ جو شخص زیرو سے کم نہ تھا، اسے ہم نے ہیرو بنا دیا

ہفتہ، 14 دسمبر، 2013

راتاں، سفنے، ڈر تے میں

رَاتَاں، سُفنے،  ڈَر تَے میں
نَال کَھلی اے در تَے میں

اِک دُوجے دَے مُجرم آں
میرے کُترے پَر تَے میں

بَامَن بیٹھا ویکھ ریا واں
مسجد دے منبر تَے میں

لَڑدے پئے آں اَزلاں توں
اَنہونی دا وَر تَے میں

شام تھی اور برگ و گُل شَل تھے مگر صبا بھی تھی

شام تھی اور برگ و گُل شَل تھے مگر صبا بھی تھی
ایک عجیب سکوت تھا ایک عجب صدا بھی تھی

ایک ملال کا سا حال محو تھا اپنے حال میں
رقص و نوا تھے بے طرف محفلِ شب بپا بھی تھی

سامعۂ صدائے جاں بے سروکار تھا کہ تھا
ایک گماں کی داستاں برلبِ نیم وا بھی تھی

کیا مہ و سالِ ماجرا، ایک پلک تھی جو میاں
بات کی ابتدا بھی تھی بات کی انتہا بھی تھی

ایک سرودِ روشنی نیمۂ شب کا خواب تھا
ایک خموش تیرگی سانحہ آشنا بھی تھی

دل تیرا پیشۂ گلہ کام خراب کر گیا
ورنہ تو ایک رنج کی حالتِ بے گلہ بھی تھی

دل کے معاملے جو تھے ان میں سے ایک یہ بھی ہے
اک ہوس تھی دل میں جو دل سے گریز پا بھی تھی

بال و پرِ خیال کو اب نہیں سمت وسُو نصیب
پہلے تھی ایک عجب فضا اور جو پُر فضا بھی تھی

خشک ہے چشمۂ سارِ جاں زرد ہے سبزہ زارِدل
اب تو یہ سوچیے کہ یاں پہلے کبھی ہوا بھی تھی

یہ کیا کہ اک جہاں کو کرو وقفِ اضطراب

یہ کیا کہ اک جہاں کو کرو وقفِ اضطراب
یہ کیا کہ ایک دل کو شکیبا نہ کر سکو

ایسا نہ ہو یہ درد بنے دردِ لا دوا
ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کر سکو

شاید تمھیں بھی چین نہ آئے مرے بغیر
شاید یہ بات تم بھی گوارا نہ کر سکو

کیا جانے پھر ستم بھی میسّر ہو یا نہ ہو
کیا جانے یہ کرم بھی کرو یا نہ کر سکو

اللہ کرے جہاں کو مری یاد بھول جائے
اللہ کرے کہ تم کبھی ایسا نہ کر سکو

میرے سوا کسی کی نہ ہو تم کو جستجو
میرے سوا کسی کی تمنّا نہ کر سکو

منگل، 10 دسمبر، 2013

جندے نی

جِندے نی! تُوں کِیکن جَمّی
پیر پیر تے نِت بکھیڑے
جیون دی راہ لَمّی

جِندے نی! کِیہ لَچّھن تیرے
پَھنیئر نال یارانے وی نیں
جوگی وَل وی پھیرے

جِندے نی! کِیہ ساک سہیڑے
اِک بُکّل وِچ رانجھن ماہی
دُوجی دے وِچ کھیڑے

جِندے نی! کِیہ کارے کِیتے
آپے آس دے چولے پاڑے
آپے بِہہ کے سِیتے

جِندے نی! تک چیت وساکھاں
تُوں پِھردی ایں میل کُچیلی
دَس! تینُوں کِیہ آکھاں؟

جِندے نی! تیرا کارج کوڑا
سِر تے شَگناں والِیاں گھڑیاں
کَڈھ وچھایا ای پُھوہڑا

جِندے نی! تینُوں کیہڑا دَسّے
لُوں لُوں تیرا عیباں بَھریا
موت وٹیندی رَسّے

جِندے نی! تیرے ساہ نکارے
موئے مُونہہ نال آ بیٹھی ایں
جِیون دے دربارے

جِندے نی! کِیہ اَتّاں چائیاں
ہَس کھیڈن دی ویلھ نہ تینُوں
کردی پِھریں لڑائیاں

جِندے نی! کِیہ ویلے آئے
اِک دُوجے دی جان دے وَیری
اِکّو ماں دے جائے

جِندے نی! تیرے جِیون ما پے
آپے ہَتّھیں ڈولی چاڑھن
آپے کَرَن سیاپے

جِندے نی! کِس ٹُونے کِیتے
دِل دریا تے نین سمندر
روون بیٹھے چُپ چپِیتے

جِندے نی! کِیہ کھیڈاں ہوئیاں
پیو پُتراں دے پیرِیں پے کے
مانواں دِھیاں روئیاں

جِندے نی! کِیہ کاج کمائے
جِنّے وی تُوں سنگ سہیڑے
رُوح دے میچ نہ آئے

جِندے نی! کِیہ ہونیاں ہوئیاں
عِشقے دے گھر رہ کے اَکّھیاں
نہ ہَسیاں نہ روئیاں

جِندے نی! تیرے ساہ کچاوے
روز دیہاڑے مرنا پیندا
فیر وی موت ڈراوے

پیر، 9 دسمبر، 2013

تمہارا فیصلہ جاناں مجھے بے حد پسند آیا

تمہارا فیصلہ جاناں مجھے بے حد پسند آیا
پسند آنا ہی تھا جاناں
ہمیں اپنے سے اتنی دور تک جانا ہی تھا جاناں

بجا ہے خانماں سوز آرزوؤں ، تیرہ امّیدوں،
سراسر خوں شدہ خوابوں ، نوازش گر سرابوں،
ہاں سرابوں کی قَسم یک سر بجا ہے
اب ہمارا جان و دل کے جاوداں ، دل جان رشتے کو
اور اس کی زخم خوردہ یاد تک تو بے نیازانہ
بھُلا دینا ہی اچھا ہے
وہ سرمایا ، وہ دل سے بے بہا تر جاں کا سرمایا
گنوا دینا ہی اچھا ہے
زیانِ جاودانی کے گلہ افروز داغوں کو
بجھا دینا ہی اچھا ہے
تمہارا فیصلہ جاناں! مجھے بےحد پسند آیا۔ ۔ ۔۔۔ ​

پیر، 2 دسمبر، 2013

زنداں کی ایک شام

شام کے پیچ و خم ستاروں سے
زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات
یوں صبا پاس سے گزرتی ہے
جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات
صحنِ زنداں کے بے وطن اشجار
سرنگوں ،محو ہیں بنانے میں
دامنِ آسماں پہ نقش و نگار

شانۂ بام پر دمکتا ہے!
مہرباں چاندنی کا دستِ جمیل
خاک میں گھل گئی ہے آبِ نجوم
نور میں گھل گیا ہے عرش کا نیل
سبز گوشوں میں نیلگوں سائے
لہلہاتے ہیں جس طرح دل میں
موجِ دردِ فراقِ یار آئے

دل سے پیہم خیال کہتا ہے
اتنی شیریں ہے زندگی اس پل
ظلم کا زہر گھولنے والے
کامراں ہو سکیں گے آج نہ کل
جلوہ گاہِ وصال کی شمعیں
وہ بجھا بھی چکے اگر تو کیا
چاند کو گل کریں تو ہم جانیں

بدھ، 27 نومبر، 2013

جبر پُر اختیار ہے ، اماں ہاں

جبر پُر اختیار ہے ، اماں ہاں
بیقراری قرار ہے ، اماں ہاں

ایزدِ یزداں ہے تیرا انداز
اہرمن دل فگار ہے ، اماں ہاں

میرے آغوش میں جو ہے اُس کا
دَم بہ دَم انتظار ہے ، اماں ہاں

ہے رقیب اُس کا دوسرا عاشق
وہی اِک اپنا یار ہے ، اماں ہاں

یار زردی ہے رنگ پر اپنے
سو خزاں تو بہار ہے ، اماں ہاں

لب و پستان و ناف اس کے نہ پوچھ
ایک آشوبِ کار ہے ، اماں ہاں

سنگ در کے ہوں یا ہوں دار کے لوگ
سب پہ شہوت سوار ہے ، اماں ہاں

اب تو انساں کے معجزے ہیں عام
اور انسان خوار ہے ، اماں ہاں

ایک ہی بار بار ہے ، اماں ہاں
اک عبث یہ شمار ہے ، اماں ہاں

ذرّہ ذرّہ ہے خود گریزانی
نظم ایک انتشار ہے ، اماں ہاں

ہو وہ یزداں کہ آدم و ابلیس
جو بھے خود شکار ہے ، اماں ہاں

وہ جو ہے جو   کہیں نہیں اس کا
سب کے سینوں پہ بار ہے ، اماں ہاں

اپنی بے روزگاریِ جاوید
اک عجب روزگار ہے ، اماں ہاں

شب خرابات میں تھا حشر بپا
کہ سخن ہرزہ کار ہے ، اماں ہاں

کیا کہوں فاصلے کے بارے میں
رہگزر ، رہگزر ہے ، اماں ہاں

بھُولے بھُولے سے ہیں وہ عارض و لب
یاد اب یادگار ہے ، اماں ہاں

منگل، 26 نومبر، 2013

وہ اہلِ حال جو خود رفتگی میں آئے تھے

وہ اہلِ حال جو خود رفتگی میں آئے تھے
بلا کی حالتِ شوریدگی میں آئے تھے

کہاں گئے کبھی ان کی خبر تو لے ظالم
وہ بے خبر جو تیری زندگی میں آئے تھے

گلی میں اپنی گِلہ کر ہمارے آنے کا
کہ ہم خوشی میں نہیں سرخوشی میں آئے تھے

کہاں چلے گئے اے فصلِ رنگ و بُو وہ لوگ
جو زرد زرد تھے اور سبزگی میں آئے تھے

نہیں ہے جن کے سبب اپنی جانبری ممکن
وہ زخم ہم کو گزشتہ صدی میں آئے تھے

تمہیں ہماری کمی کا خیال کیوں آتا
ہزار حیف ہم اپنی کمی میں آئے تھے

اتوار، 17 نومبر، 2013

یہ بالیقین حسین ہے، نبی کا نور عین ہے

لباس ہے پھٹا ہوا، غُبار میں اٹا ہوا
تمام جسمِ نازنیں، چھدا ہوا کٹا ہوا
یہ کون ذی وقار ہے، بلا کا شہ سوار ہے
کہ ہے ہزاروں قاتلوں کے سامنے ڈٹا ہوا
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

یہ کون حق پرست ہے، مئے رضائے مست ہے
کہ جس کے سامنے کوئی بلند ہے نہ پست ہے
اُدھر ہزار گھات ہے، مگر عجیب بات ہے
کہ ایک سے ہزار کا بھی حوصلہ شکست ہے
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

یہ جسکی ایک ضرب سے، کمالِ فنّ ِ حرب سے
کئی شقی گرئے ہوئے تڑپ رہے ہیں کرب سے
غضب ہے تیغِ دوسرا کہ ایک ایک وار پر
اُٹھی صدائے الاماں زبانِ شرق وغرب سے
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

عبا بھی تار تار ہے، تو جسم بھی فگار ہے
زمین بھی تپی ہوئی  فلک بھی شعلہ بار ہے
مگر یہ مردِ تیغ زن، یہ صف شکن فلک فگن
کمالِ صبر و تن دہی سے محوِ کارزار ہے
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

دلاوری میں فرد ہے، بڑا ہی شیر مرد ہے
کہ جس کے دبدبے سے رنگ دشمنوں کا زرد ہے
حبیبِ مُصطفیٰ ہے یہ، مجاہدِ خدا ہے یہ
جبھی تو اس کے سامنے، یہ فوج گرد گرد ہے
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

اُدھر سپاہِ شام ہے، ہزار انتظام ہے
اُدھر ہیں دشمنانِ دیں، اِدھر فقط اِمام ہے
مگر عجیب شان ہے غضب کی آن بان ہے
کہ جس طرف اُٹھی ہے تیغ بس خدا کا نام ہے
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

پس مرگ میرے مزار پر جو دیا کسی نے جلا دیا

پس مرگ میرے مزار پر جو دیا کسی نے جلا دیا
اسے آہ دامنِ باد نے، سر شام ہی سے بجھا دیا

مجھے دفن کرنا تو جس گھڑی، تو یہ اس سے کہنا کہ ائے پری
وہ جو تیرا عاشق زار تھا، تہہ خاک اسے دبا دیا

دم غسل سے مرے پیشتر، اسے ہم دموں نے یہ سوچ کر
کہیں جائے اس کا نہ دل دہل، میری لاش پر سے ہٹا دیا

میری آنکھ جھپکی تھی اک پل، میرے دل نے چہا کہ اُٹھ کر چل
دل بے قرار نے اور میاں وہیں چٹکی کے کے جگا دیا

ذرا ان کی شوخی تو دیکھیے لئے زلف زخم شدہ ہاتھ میں
میرے پیچھے آئے دبے دبے مجھے سانپ کہہ کے ڈرا دیا

میں نے دل دیا، میں جاں دی، مگر آہ! تو نہ نہ قدر کی
کسی بات کو جو کہا کبھی، اسے چٹکیوں میں اُڑا دیا

بدھ، 13 نومبر، 2013

ضبط اپنا شعار تھا، نہ رہا

ضبط اپنا شعار تھا، نہ رہا
دل پہ کچھ اختیار تھا، نہ رہا

دلِ مرحوم کو خدا بخشے
ایک ہی غم گسار تھا، نہ رہا

موت کا انتظار باقی ہے
آپ کا انتظار تھا، نہ رہا

اب گریباں کہیں سے چاک نہیں
شغلِ فصلِ بہار تھا، نہ رہا

آ، کہ وقتِ سکونِ مرگ آیا
نالہ نا خوش گوار تھا، نہ رہا

ان کی بے مہریوں کو کیا معلوم
کوئی اُمّیدوار تھا، نہ رہا

آہ کا اعتبار بھی کب تک
آہ کا اعتبار تھا، نہ رہا

کچھ زمانے کو سازگار سہی
جو ہمیں سازگار تھا، نہ رہا

مہرباں، یہ مزارِ فانی ہے
آپ کا جاں نثار تھا، نہ رہا

گھر کو چھوڑا شاہ نے جنت بسانے کے لیے

گھر کو چھوڑا شاہ نے جنت بسانے کے لیے
کربلا میں آئے تھے دنیا سے جانے کے لیے

ظہر کو زینب سے جب ملنے گئے گھر میں حُسین
کوئی ڈیوڑھی پر نہ تھا پردہ اٹھانے کے لیے

صبر یہ تھا مرگ پر باندھی جو اکبر نے کمر
شہ نے الٹی آستیں لاشہ اٹھانے کے لیے

کہتی تھی ماں خط مرے اکبر کو تھا پیغامِ مرگ
یہ جوانی آئی تھی گویا بلانے کے لیے

بڑھتی ہے منت غذا اصغر کی ہوتی ہے شروع
دودھ چھٹتا ہے چلے ہیں تیر کھانے کے لیے

عرشِ اعظم سے گزر جاتی ہے آہِ شاہِ دیں
تیر ایسا چاہیے ایسے نشانے کے لیے

تھا سرائے دہر میں اصغر کو رہنا ناگوار
مارتے تھے دست و پا دنیا سے جانے کے لیے

ڈھونڈتے ہیں طائرانِ گنبدِ قبرِ حسین
حضرتِ جبریل کے پر آشیانے کے لیے

کھیلتی تھیں خاک سے طفلی میں زینب بارہا
مشق کی تھی کربلا میں خاک اڑانے کے لیے

کربلا والوں کا ماتم دار تھا جنگل میں کون
رونے کو شبنم، ہوا تھی خاک اڑانے کے لیے

بخششِ سرور کی بازارِ عطا میں دھوم ہے
آستیں الٹے کھڑے ہیں گھر لٹانے کے لیے

حضرتِ سجاد راہِ شام سے واقف نہ تھے
ہاتھ پکڑے تھی رسن رستہ بتانے کے لیے

صبح سے تا ظہر تھی شہ کو یہ زہرا کی صدا
ہم نے پالا تھا تمہیں لاشے اٹھانے کے لیے

سن سے تیر آیا کہ آنکھیں ہو گئیں اصغر کی بند
خوب جھونکا تھا ہوا کا نیند آنے کے لیے

اے تعشق وائے حسرت کچھ نہیں زادِ سفر
ہاتھ خالی بیٹھے ہو دنیا سے جانے کے لیے​

پیر، 11 نومبر، 2013

تمہارا شکریہ از جون ایلیا

تمہارا شکریہ
ـــــــــــــــــــــــــ

جون ایلیاء کی آخری مکمل تحریر "تمھارا شکریہ" ان کی وفات کے بعد سسپینس ڈائجسٹ میں شایع ہوئی جس میں انہوں نے اپنی موت کی قبل از وقت علامتی اطلاع دی تھی جس میں جون ایلیاء کا ہمزاد (نشیان) ان کے قاتلوں کا انکشاف کر رہا ہے۔

نشیان، سحرالبیان
تم نے سنا جون ایلیاء مر گئے
کیا کہا، جون ایلیاء مر گئے؟
ہاں، ہاں جون ایلیاء مر گئے
لیکن تمہیں یقین کیوں نہیں آ رہا "نشیان، بلیغ البیان!" کیا میں اتنا بڑا اور احمقانہ جھوٹ بول سکتا ہوں؟ کیا میں تم سے ٹھٹھول کر سکتا ہوں؟ نہیں نشیان، نہیں نہ یہ مخول ہے نہ ٹھٹھول! یہ حقیقت ہے بین اور ٹھوس حقیقت جس سے نہ منہ موڑا جا سکتا ہے اور نہ انکار کیا جا سکتا ہے

اچھا! چلو میں تمہاری اس دل پذیر تقریر پر اعتبار کر لیتا ہوں میں مان لیتا ہوں کہ تم سچ بول رہے ہو ممکن ہے کہ تم سچ ہی بول رہے ہو "شاید" تم سچ ہی بول رہے ہو اچھا بھئی، تم یقیناً سچ بول رہے ہو، اب اگر ایسا ہی ہے "یعنی" یہ کہ تم سچ ہی بول رہے ہو تو سنو، ذرا غور سے سنو!

اب تم بول چکو اور میری بات سنو، آج صرف میں بولوں گا، صرف میں اس لیے کہ جون ایلیاء تو مر گئے ان کے سامنے تو میں کیا، کوئی بھی بول ہی نہیں سکتا تھا لہذا ان کی موجودگی میں چپ رہ رہ کر میرا سینہ جہنم بن چکا ہے میرے اندر ایک آگ لگی ہوئی ہے اور میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور میں آج اس آگ کو بجھا کر ہی دم لوں گا اور اس آگ میں تم کو جلا کر ہی دم لوں گا

اب تم انتہائی خاموشی! جاں گسل خاموشی کے ساتھ سنو

تم نے کہا کہ "جون ایلیاء مر گئے" یہی کہا ہے نا؟ دیکھو، اپنے بیان سے پھر مت جانا کہ آج دنیا کا یہی چلن ہے اور تم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم، ہی تو دنیا ہو یا "شاید" دنیا تم ہو بہ ہر صورت تم جو کوئی بھی ہو، بس ہو لہذا سنو

میں نشیان، سحر البیان پوری دنیا کو، پورے اردو گلوب کو آج یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ جون ایلیا نہیں مرے آج کے بعد کوئی یہ لفظ اپنی لپ لپاتی زبان سے ادا نہ کرے کہ جون ایلیاء مر گئے ورنہ گدی سے اس کی زبان کھینچ لی جائے گی

کیوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نشیان، کیوں ؟ آکر اس حقیقت کی حقیقت سے انکار کیوں؟ میرا خیال ہے تم جون ایلیاء کی محبت میں جذباتی ہو رہے ہو

خاموش! لب کشائی کی جرات مت کرو دریدہ دہہن انسان خاموش!

اگر حوصلہ ہے تو سنو ورنہ دفعہ ہو جاؤ میں یہ کبھی نہیں مان سکتا کہ جون ایلیاء مر گئے اس لیے کہ اگر میں یہ مان لوں تو پھر تمہیں جو کچھ ماننا پڑے گا تم اس کے لیے ہرگز ہرگز تیار نہیں ہو گے

کیا کہا ؟ تم سب کچھ ماننے کے لیے تیار ہو، اچھا تو پھر سنو

اگر میں یہ مان لوں کہ جون ایلیاء مر گئے تو پھر تمہیں یہ ماننا پڑے گا کہ آج ایک سقراط مر گیا، ہومر مر گیا، تاسیس ملیٹی! ہاں، وہ بھی گیا ارسطو، وہ بھی ہاں، ہاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہاں! ابن مسکویہ، فارابی، ابن رشد، بو علی سینا، طوسی، خیام سعدی، عرفی، رومی، نطشے، برٹرینڈرسل، برنارڈ شا،مل یہ سب مر گئے ایک پوری کی پوری بستی فنا کے گھاٹ اتر گئ

پڑ گیئں نا شکنیں پیشانی پر؟ تو کیا میں ڈر جاؤں گا!

نہیں مربی نہیں، میں بہت ڈر لیا، اب مجھے کسی کا ڈر نہیں ہے جب جون ایلیاء مر گئے تو اب مجھے موت کا کیا ڈر سنو، اب تو جہنم ہی سنو

جون ایلیاء مرے نہیں ہیں میں بار بار یہی کہتا رہوں گا کہ جون ایلیاء نہیں مرے ہاں میں یہ مان لوں گا کہ جون ایلیاء ہار گئے

مربی، اب پھر تم ادبی جملہ بولو گے کہ جون ایلیاء موت سے ہار گئے لیکن ایسا بالکل نہیں ہے مربی!

پیارے نشیان، ذرا دم لے لو، تمہارا سانس پھول چکا ہے ایک ذرا دم لے لو یہ لو! یہ دو گھونٹ پانی پی لو

میں پانی پی کر بھی آج تمہارا شکریہ ادا نہیں کروں گا اور تمہارا یہ پانی! ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ چند گھونٹ میرے لیے، میرے اندر کے جہنم کے لیے قطعاً بے کار اور ناکافی ہیں

سنو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور صرف سنو! تم نے صرف ایک ہی فن سیکھا ہے اور وہ ہے خوشآمد، میری خوشآمد مت کرو، مجھے پانی مت پلاؤ بس اگر ہو سکے تو صرف سنو!

جون ایلیاء زندگی سے نہیں ہارے بلکہ وہ تمہاری دنیا سے ہارے ہیں خوشامد سے ہارے ہیں فریب سے ہارے ہیں دغا بازی سے ہارے ہیں نمک حرامی سے ہارے ہیں، احسان فراموشی سے ہارے ہیں وہ تو تم سے ہارے ہیں مربی! تم سے

بس چند جملے اور سن لو مربی! اور ذرا کلیجے کو تھام لو کہ میں اب ان لوگوں کے نام لینے والا ہوں جن سے جون ایلیاء ہار گئے ہیں

جون ایلیا! تنہائی اور بے وفائی سے ہارے ہیں
جون ایلیا! علمی بونوں سے ہارے ہیں
جون ایلیا! اپنے خون سے ہارے ہیں
جون ایلیا! اپنی ثقافت سے ہارے ہیں
جون ایلیا! اپنی روایت سے ہارے ہیں

یہ ہیں جون ایلیا کے قاتل

مربی، اب اگر تم ان ناموں سے واقف نہیں ہو تو یہ تمہاری کم علمی اور سہل پسندی ہے اک ذرا سی کوشش کرو تو تم ان چہروں سے بھی آشنا ہو جاؤ گے

جاؤ مربی، جاؤ اپنے اس جہنم میں دفعان ہو جاؤ جو تم نے خود تیار کیا ہے ہو جاؤ مگن دنیا میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن یاد رکھو، جون ایلیاء کے یادگاری جلسوں میں کہا جانے والا یہ لفظ بے معنی ہے کہ ایک خلا پیدا ہو گیا ہے جو تا دیر پر نہیں ہو گا کوئی خلا پیدا نہیں ہوا یہ مان لو، نہیں مانتے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا کہا نہیں مانتے ؟ دیکھو، سوچ لو اگر نہیں مانو گے تو پھر تمہیں میرے اس جملے سے مکمل اتفاق کرنا پڑے گا اور یاد رکھو، پھر یہ جملہ تمہارا مقدر ہو جائے گا وہ مقدر جس کو تم بدل نہیں سکو گے

اور وہ جملہ یہ ہے کہ آج ادب، تاریخ، فلسفے، منطق اور ذہہن و زبان و ثقافت کا ایک مکمل دور ختم ہو گیا ہے، خلا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا کہا خلا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہاں یاد آیا، مربی! تم نے خلا کی بات کی تھی بھائی، تم جس خلا کی بات کر رہے ہو، وہ خلا تو جون ایلیاء کی زندگی میں ہی پر ہو گیا تھا

نشیان! پیارے، راج دلارے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ کیسے ممکن ہے، یہ خلا کس نے پر کیا؟ کیسے ہوا، بھلا کیسے؟ یہ ان ہون، یہ ناممکن ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ناممکن ہے

نہیں مربی! نہیں، تمہاری دنیا میں کچھ بھی ناممکن نہیں ہے لیکن تم نہیں مانو گے تم کیسے مان سکتے ہو بھلا کہیں اندرائن کے پیڑ میں بھی انگور کے خوشے لگے ہیں اچھا! تم نہیں مانتے، چلو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں مان لیتا ہوں تو پھر سنو کہ یہ خلا تمہارے بونوں نے جون ایلیاء کی زندگی ہی میں پر کر دیا تھا

پھر وہی نہیں

ہاں نشیان! نہیں، نہیں، نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 

اچھا مربی! تو پھر آج ہم اور تم اس بات کو آکری فیصلہ قرار دیتے ہیں کہ یہ خلا کبھی، کبھی، کبھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پر نہیں ہو گا کیا تم اس بات سے اتفاق کرتے ہو مربی! اگر ہاں تو پھر تمھارا شکریہ مربی، ڈھیروں شکریہ!

(ماہنامہ سسپنس ڈائجسٹ دسمبر 2002ء)

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔