اتوار، 27 جنوری، 2013

ہمارے شوق کی یہ انتہا تھی

ہمارے شوق کی یہ انتہا تھی
قدم رکھا کہ منزل راستہ تھی

بچھڑ کے ڈار سے بَن بَن پِھرا وہ
ہرن کو اپنی کستوری سزا تھی

کبھی جو خواب تھا وہ پا لیا ہے
مگر جو کھو گئی وہ چیز کیا تھی

میں بچپن میں کھلونے توڑتا تھا
میرے انجام کی وہ ابتدا تھی

محبّت مر گئی مجھ کو بھی غم ہے
میرے اچھے دنوں کی آشنا تھی

جسے چُھو لوں میں وہ ہو جائے سونا
تجھے دیکھا تو جانا بددعا تھی

مریضِ خواب کو تو اب شفا ہے
مگر دنیا بڑی کڑوی دوا تھی

جمعرات، 24 جنوری، 2013

خدا فرمایا محبوبا، زمانے سارے تیرے نیں

خدا فرمایا محبوبا، زمانے سارے تیرے نیں
عرش والے، فرش والے، دیوانے سارے تیرے نیں

میں خالق ساری دنیا دا، توں مالک ساری دنیا دا
کسی منگتے نوں نا موڑیں، خزانے سارے تیرے نیں

میں شاہرگ توں وی اقرب ہاں، تو جاناں تو وی ہیں نیڑے
جو دل نیں سینیآں اندر، ٹھکانے سارے تیرے نیں

نماز ہوے اذان ہوے، درود ہوے سلام ہوے
جو گونجن ہر طرف سوہنا، ترانے سارے تیرے نیں

امیراں نال ہر کوئی، ہے کردا دوستی ناصر
غریباں نال محبوبا، یارانے سارے تیرے نیں

بدھ، 23 جنوری، 2013

کونسا طائرِ گم گشتہ اسے یاد آیا

کونسا طائرِ گم گشتہ اسے یاد آیا
دیکھتا بھالتا ہر شاخ کو صیّاد آیا

میرے قابو میں نہ پہروں دلِ ناشاد آیا
وہ مرا بھولنے والا جو مجھے یاد آیا

کوئی بھولا ہوا اندازِ ستم یاد آیا
کہ تبسّم تجھے ظالم دمِ بیداد آیا

لائے ہیں لوگ جنازے کی طرح محشر میں
کس مصیبت سے ترا کشتۂ بیداد آیا

جذبِ وحشت ترے قربان ترا کیا کہنا
کھنچ کے رگ رگ میں مرے نشترِ فصّاد آیا

اس کے جلوے کو غرض کون و مکاں سے کیا تھے
داد لینے کے لئے حسنِ خدا داد آیا

بستیوں سے یہی آواز چلی آتی ہے
جو کیا تو نے وہ آگے ترے فرہاد آیا

دلِ ویراں سے رقیبوں نے مرادیں پائیں
کام کس کس کے مرا خرمنِ برباد آیا

عشق کے آتے ہی منہ پر مرے پھولی ہے بسنت
ہو گیا زرد یہ شاگرد جب استاد آیا

ہو گیا فرض مجھے شوق کا دفتر لکھنا
جب مرے ہاتھ کوئی خامۂ فولاد آیا

عید ہے قتل مرا اہلِ تماشا کے لئے
سب گلے ملنے لگے جبکہ وہ جلّاد آیا

چین کرتے ہیں وہاں رنج اٹھانے والے
کام عقبیٰ میں ہمارا دلِ ناشاد آیا

دی شبِ وصل موذّن نے اذاں پچھلی رات
ہائے کمبخت کو کس وقت خدا یاد آیا

میرے نالے نے سنائی ہے کھری کس کس کو
منہ فرشتوں پہ یہ گستاخ یہ آزاد آیا

غمِ جاوید نے دی مجھ کو مبارکبادی
جب سنا یہ انہیں شیوۂ بیداد آیا

میں تمنائے شہادت کا مزا بھول گیا
آج اس شوق سے ارمان سے جلّاد آیا

شادیانہ جو دیا نالہ و شیون نے دیا
جب ملاقات کو ناشاد کی ناشاد آیا

لیجیے سنیے اب افسانۂ فرقت مجھ سے
آپ نے یاد دلایا تو مجھے یاد آیا

آپ کی بزم میں سب کچھ ہے مگر داغ نہیں
ہم کو وہ خانہ خراب آج بہت یاد آیا

اتوار، 20 جنوری، 2013

کھنڈر

میں کھنڈروں کی زمیں پر کب سے بھٹک رہا ہوں
قدیم راتوں کی ٹوٹی قبروں پر میلے کتبے
دلوں کی ٹوٹی ہوئی صلیبیں گری پڑی ہیں
شفق کی ٹھنڈی چھاؤں سے راکھ اُڑ رہی ہے
جگہ جگہ گرز وقت کے چور ہو گئے
جگہ جگہ ڈھیر ہو گئیں ہیں عظیم صدیاں

میں کھنڈروں کی زمیں پر کب سے بھٹک رہا ہوں
یہیں مقدس ہتھیلیوں سے گری ہے مہندی
دیوں کی ٹوٹی ہوئی لویں زنگ کھا گئی ہیں
یہیں پہ ہاتھوں کی روشنی جل کے بُجھ گئی ہے
سپاٹ چہروں کے خالی پنے کُھلے ہوئے ہیں
حروف آنکھوں کے مٹ چکے ہیں

میں کھنڈروں کی زمیں پر کب سے بھٹک رہا ہوں
یہیں کہیں
زندگی کے معنی گرے ہیں اور گِر کے
کھو گئے ہیں

ہفتہ، 19 جنوری، 2013

نئی نسل کا نوحہ

میں سوچتا ہوں
لکھا ہے جو کچھ،پڑھا ہے جو کچھ وہ کس لئے تھا،
کہاں سے پوچھوں!
وہ کس لیے ہے کسے بتاؤں!
مجھے عقیدوں کے خواب دے کر کہا گیا،ان میں روشنی ہے
چمکتی قدروں کی چھب دکھا کر مجھے بتایا یہ زندگی ہے
سکھائے مجھ کو کمال ایسے
یقیں نہ لا ئیں سکھانے والے اگر انہیں کو میں جا سناؤں
میں کہنہ آنکھوں کی دسترس میں نئے مناظر کہاں سے لاؤں
کہاں پہ جنسِ کمال رکھوں، خیالِ تازہ کہاں سجاؤں
زمین پاؤں تلے نہیں ہے،تو کیسے ستاروں کی سمت جاؤں
پرانی قدریں جو محترم ہیں
انھیں سنبھالوں یا آنے والے نئے عقیدوں کا بھید پاؤں
وہ سب عقیدے،تمام قدریں ،خیال سارے
جو مجھ کو سکے بنا کے بخشے گئے تھے میرے حواسِ خمسہ سے معتبر تھے
جب ان کو رہبر بنا کے نکلا
تو میں نے دیکھا کہ میرے ہاتھوں میں کچھ نھیں ہے
میں ایسے بازار میں کھڑا ہوں جہاں کرنسی بدل چکی ہے

جمعہ، 18 جنوری، 2013

دھمکی میں مر گیا، جو نہ بابِ نبرد تھا

دھمکی میں مر گیا، جو نہ بابِ نبرد تھا
عشقِ نبرد پیشہ, طلبگارِ مرد تھا

تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا
اڑنے سے پیشتر بھی، مرا رنگ زرد تھا

تالیفِ نسخہ ہائے وفا کر رہا تھا میں
مجموعۂ خیال ابھی فرد فرد تھا

دل تاجگر، کہ ساحلِ دریائے خوں ہے اب
اس رہ گزر میں جلوۂ گل، آگے گرد تھا

جاتی ہے کوئی کشمکش اندوہِ عشق کی !
دل بھی اگر گیا، تو وُہی دل کا درد تھا

احباب چارہ سازئ وحشت نہ کر سکے
زنداں میں بھی خیال، ببایاں نورد تھا

یہ لاشِ بے کفن اسد خستہ جاں کی ہے
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

منگل، 15 جنوری، 2013

جو ہم کہتے ہیں یہ بھی کیوں نہیں کہتا، یہ کافر ہے

جو ہم کہتے ہیں یہ بھی کیوں نہیں کہتا، یہ کافر ہے
ہمارا جبر یہ ہنس کر نہیں سہتا، یہ کافر ہے

یہ انساں کو مذاہب سے پرکھنے کا مخالف ہے
یہ نفرت کے قبیلوں میں نہیں رہتا، یہ کافرہے

بہت بے شرم ہے یہ ماں جو مزدوری کو نکلی ہے
یہ بچہ بھوک اک دن کی نہیں سہتا، یہ کافر ہے

یہ بادل ایک رستے پر نہیں چلتے یہ باغی ہیں
یہ دریا اس طرف کو کیوں نہیں بہتا، یہ کافر ہے

ہیں مشرک یہ ہوائیں روز یہ قبلہ بدلتی ہیں
گھنا جنگل انہیں کچھ بھی نہیں کہتا، یہ کافر ہے

یہ تتلی فاحشہ ہے پھول کے بستر پہ سوتی ہے
یہ جگنو شب کے پردے میں نہیں رہتا، یہ کافرہے

شریعاً تو کسی کا گنگنانا بھی نہیں جائز
یہ بھنورا کیوں بھلا پھر چپ نہیں رہتا یہ کافر ہے

پیر، 7 جنوری، 2013

ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آئے

ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آئے
آئے تو سہی بر سرِ الزام ہی آئے

حیران ہیں، لب بستہ ہیں، دل گیر ہیں غنچے
خوشبو کی زبانی تیرا پیغام ہی آئے

لمہحاتِ مسرت ہیں تصوّر سے گریزاں
یاد آئے ہیں جب بھی غم و آلام ہی آئے

تاروں سے سجالیں گے رہ شہرِ تمنّا
مقدور نہیں صبح ، چلو شام ہی آئے

کیا راہ بدلنے کا گلہ ہم سفروں سے
جس راہ سے چلے تیرے در و بام ہی آئے

تھک ہار کے بیٹھے ہیں سرِ کوئے تمنّا
کام آئے تو پھر جذبہ نام ہی آئے

باقی نہ رہے ساکھ ادا دشتِ جنوں کی
دل میں اگر اندیشہ انجام ہی آئے

اتوار، 6 جنوری، 2013

نہ ہوا نصیب قرارِ جاں، ہوسِ قرار بھی اب نہیں

نہ ہوا نصیب قرارِ جاں، ہوسِ قرار بھی اب نہیں
ترا انتظار بہت کیا، ترا انتظار بھی اب نہیں

تجھے کیا خبر مہ و سال نے ہمیں کیسے زخم دیئے یہاں
تری یادگار تھی اک خلش، تری یادگار بھی اب نہیں

نہ گلے رہے نہ گماں رہے، نہ گزارشیں ہیں نہ گفتگو
وہ نشاطِ وعدہء وصل کیا، ہمیں اعتبار بھی اب نہیں

کسے نذر دیں دل و جاں بہم کہ نہیں وہ کاکُلِ خم بہ خم
کِسے ہر نفس کا حساب دیں کہ شمیمِ یار بھی اب نہیں

وہ ہجومِ دل زدگاں کہ تھا، تجھے مژدہ ہو کہ بکھر گیا
ترے آستانے کی خیر ہو، سرِ رہ غبار بھی اب نہیں

وہ جو اپنی جاں سے گزر گئے، انہیں کیا خبر ہے کہ شہر میں
کسی جاں نثار کا ذکر کیا، کوئی سوگوار بھی اب نہیں

نہیں اب تو اہلِ جنوں میں بھی، وہ جو شوق شہر میں عام تھا
وہ جو رنگ تھا کبھی کو بہ کو، سرِ کوئے یار بھی اب نہیں

ہفتہ، 5 جنوری، 2013

زندگی کی دلفریبی سے اماں کیا پاؤں گا

زندگی کی دلفریبی سے اماں کیا پاؤں گا
میں اسی کافر ادا پر جاں فدا کر جاؤں گا

ناصحا اس بات کا کچھ پہلے کر لے فیصلہ
تو مجھے سمجھائے گا یا میں تجھے سمجھاؤں گا

ہر مکاں سے ہی کوئی آواز اگر آنے لگی
میں تجھے پہچاننے کس کس مکاں میں جاؤں گا

آنکھ بھر کر دیکھنے کی تجھ کو کیا جرات کروں
مجھ کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ میں جل جاؤں گا

میری مٹی میں ترنم کی ملاوٹ ہے عدم
گاتا آیا تھا یہاں ، گاتا ہی واپس جاؤں گا

جمعرات، 3 جنوری، 2013

قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو

میاں داد خان سیاح اورنگ آباد میں1830 میں پیدا ہوئے، ابتدا میں عشاق تخلص کرتے تھے۔ غالب کے شاگرد ہوئے تو انہوں نے ان کے ذوق سفر کی مناسبت سے ان کا تخلص سیاح تجویز کیا۔ 1907میں بمبئی میں وفات پائی۔ 

ان کی اس غزل کا مطلع تو ضرب المثل بن چکا ہے:
قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گذرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو

جاں بَلَب دیکھ کے مجھ کو مرے عیسیٰ نے کہا
لا دوا درد ہے یہ، کیا کروں، مر جانے دو

لال ڈورے تری آنکھوں میں جو دیکھے تو کھُلا
مئے گُل رنگ سے لبریز ہیں پیمانے دو

ٹھہرو! تیوری کو چڑھائے ہوئے جاتے ہو کدھر
دل کا صدقہ تو ابھی سر سے اتر جانے دو

منع کیوں کرتے ہو عشقِ بُتِ شیریں لب سے
کیا مزے کا ہے یہ غم دوستو غم کھانے دو

ہم بھی منزل پہ پہنچ جائیں گے مرتے کھپتے
قافلہ یاروں کا جاتا ہے اگر جانے دو

شمع و پروانہ نہ محفل میں ہوں باہم زنہار
شمع رُو نے مجھے بھیجے ہیں یہ پروانے دو

ایک عالم نظر آئے گا گرفتار تمھیں
اپنے گیسوئے رسا تا بہ کمر جانے دو

سخت جانی سے میں عاری ہوں نہایت ارے تُرک
پڑ گئے ہیں تری شمشیر میں دندانے دو

ہمدمو دیکھو، الجھتی ہے طبیعت ہر بار
پھر یہ کہتے ہیں کہ مرتا ہے تو مر جانے دو

حشر میں پیشِ خدا فیصلہ اس کا ہو گا
زندگی میں مجھے اس گبر کو ترسانے دو

گر محبت ہے تو وہ مجھ سے پھرے گا نہ کبھی
غم نہیں ہے مجھے غمّاز کو بھڑکانے دو

جوشِ بارش ہے ابھی تھمتے ہو کیا اے اشکو
دامنِ کوہ و بیاباں کو تو بھر جانے دو

واعظوں کو نہ کرے منع نصیحت سے کوئی
میں نہ سمجھوں گا کسی طرح سے سمجھانے دو

رنج دیتا ہے جو وہ پاس نہ جاؤ سیّاحؔ
مانو کہنے کو مرے دُور کرو جانے دو

(بشکریہ فاتح الدین بشیر)
اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔