اتوار، 24 فروری، 2013

بلہے نوںسمجھاون آئیاں، بھیناں تے بھرجائیاں

بلہے نوںسمجھاون آئیاں، بھیناں تے بھرجائیاں

من لے بلھیا ساڈا کہنا، چھڈ دے پلا رائیاں
آل نبی اولاد علی نوں توں کیوں لیکاں لائیاں؟

جیہڑا سانوں سید سدّے دوزخ ملن سزائیاں
جو کوئی سانوں رائیں آکھے، بہشتی پینگاں پائیاں

رائیں، سائیں سبھنی تھائیں، رب دیاں بے پروائیاں
سوہنیاں پرے ہٹائیاں، تے کوجھیاں لے گل لائیاں

جے توں لوڑیں باغ بہاراں، چاکر ہو جا رائیاں
بلہے شاہ دی ذات کیہ پچھنی؟ شاکر ہو رضائیاں

ہفتہ، 23 فروری، 2013

خوش گُزَرانِ شہرِ غم، خوش گُزَراں گزر گئے

خوش گُزَرانِ شہرِ غم، خوش گُزَراں گزر گئے
زمزمہ خواں گزر گئے، رقص کُناں گزر گئے

وادیِ غم کے خوش خِرام، خوش نفَسانِ تلخ جام
نغمہ زناں، نوا زناں، نعرہ زناں گزر گئے

سوختگاں کا ذکر کیا، بس یہ سمجھ کہ وہ گروہ
صرصرِ بے اماں کے ساتھ دست فِشاں گزر گئے

زہر بہ جام ریختہ، زخم بہ کام بیختہ
عشرتیانِ رزقِ غم نوش چکاں گزر گئے

تیری وفا کے باوجود، تجھ کو نہ پا کے بدگماں
کتنے یقیں بچھڑ گئے، کتنے گماں گزر گئے

مجمعِ مَہ وَشاں سے ہم زخمِ طَلَب کے باوجود
اپنی کُلہ کَج کیے عِشوہ کُناں گزر گئے

ہم نے خدا کا رد لکھا، نفی بہ نفی لا بہ لا
ہم ہی خدا گزیدگاں تم پہ گَراں گزر گئے

رات تھی میرے سامنے فردِ حساب ِ ماہ و سال
دن مری سرخوشی کے دن، جانے کہاں گزر گئے

خود نگَرانِ دل زدہ، دل زدَگانِ خود نِگَر
کوچۂ اِلتفات سے خود نِگَراں گزر گئے

اب یہی طے ہُوا کہ ہم تجھ سے قریب تر نہیں
آج ترے تکلّفات دل پہ گَراں گزر گئے

کیا وہ بِساط اُلَٹ گئی؟ ہاں وہ بِساط اُلَٹ گئی
کیا وہ جواں گزر گئے؟ ہاں وہ جواں گزر گئے

بدھ، 20 فروری، 2013

آخر وہ میرے قد کی بھی حد سے گزر گیا

آخر وہ میرے قد کی بھی حد سے گزر گیا
کل شام میں تو اپنے ہی سائے سے ڈر گیا

مٹھی میں بند کیا ہوا بچوں کے کھیل میں
جگنو کے ساتھ اس کا اجالا بھی مر گیا

کچھ ہی برس کے بعد تو اس سے ملا تھا میں
دیکھا جو میرا عکس تو آئینہ ڈر گیا

ایسا نہیں کہ غم نے بڑھا لی ہو اپنی عمر
موسم خوشی کا وقت سے پہلے گزر گیا

لکھنا مرے مزار کے کتبے پہ یہ حروف
"مرحوم زندگی کی حراست میں مر گیا"

پیر، 18 فروری، 2013

گھر سے ہم گھر تلک گئے ہوں گے

گھر سے ہم گھر تلک گئے ہوں گے
اپنے ہی آپ تک گئے ہوں گے

ہم جو اب آدمی ہیں پہلے کبھی
جام ہوں گے چھلک گئے ہوں گے

وہ بھی اب ہم سے تھک گیا ہو گا
ہم بھی اب اس سے تھک گئے ہوں گے

شب جو ہم سے ہوا معاف کرو
نہیں پی تھی بہک گئے ہوں گے

کتنے ہی لوگ حرص شہرت میں
دار پر خود لٹک گئے ہوں گے

شکر ہے اس نگاہ کم کا میاں
پہلے ہی ہم کھٹک گئے ہوں گے

ہم تو اپنی تلاش میں اکثر
از سما تا سمک گئے ہوں گے

اس کا لشکر جہاں تہاں یعنی
ہم بھی بس بے کمک گئے ہوں گے

جون ، اللہ اور یہ عالم
بیچ میں ہم اٹک گئے ہوں گے

راس آ نہیں سکا کوئی بھی پیمان الوداع

راس آ نہیں سکا کوئی بھی پیمان الوداع
تو میری جانِ جاں سو مری جان الوداع

میں تیرے ساتھ بجھ نہ سکا حد گزر گئی
اے شمع! میں ہوں تجھ سے پشیمان الوداع

میں جا رہا ہوں اپنے بیابانِ حال میں
دامان الوداع! گریبان الوداع

اِک رودِ نا شناس میں ہے ڈوبنا مجھے
سو اے کنارِ رود ، بیابان الوداع

خود اپنی اک متاعِ زبوں رہ گیا ہوں میں
سو الوداع، اے مرے سامان الوداع

سہنا تو اک سزا تھی مرادِ محال کی
اب ہم نہ مل سکیں گے ، میاں جان الوداع

اے شام گاہِ صحنِ ملالِ ہمیشگی
کیا جانے کیا تھی تری ہر اک آن ، الوداع

کِس کِس کو ہے علاقہ یہاں اپنے غیر سے
انسان ہوں میں ، تو بھی ہے انسان الوداع

نسبت کسی بھی شہ سے کسی شے کو یاں نہیں
ہے دل کا ذرہ ذرہ پریشان الوداع

رشتہ مرا کوئی بھی الف ، بے سے اب نہیں
امروہا الوداع سو اے بان الوداع

اب میں نہیں رہا ہوں کسی بھی گمان کا
اے میرے کفر ، اے مرے ایمان الوداع

جمعہ، 8 فروری، 2013

درد کے پھول بھی کھلتے ہیں بکھر جاتے ہیں

درد کے پھول بھی کھلتے ہیں بکھر جاتے ہیں
زخم کیسے بھی ہوں کچھ روز میں بھر جاتے ہیں

چھت کی کڑیوں سے اُترتے ہیں مرے خواب مگر
میری دیواروں سے ٹکراکے بکھر جاتے ہیں

اس دریچے میں بھی اب کوئی نہیں اور ہم بھی
سر جھکائے ہوئے چپ چاپ گزر جاتے ہیں

راسته روکے کھڑی ہے یہی الجھن کب سے
کوئی پوچھے تو کہیں کیا کہ کدھر جاتے ہیں

نرم آواز، بھلی باتیں، مہذب لہجے
پہلی بارش میں ہی یہ رنگ اُتر جاتے ہیں
اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔