ہفتہ، 30 مارچ، 2013

آجائیں ہم نظر جو کوئی دم بہت ہے یاں

آجائیں ہم نظر جو کوئی دم بہت ہے یاں
مہلت ہمیں بسانِ شرر کم بہت ہے یاں

یک لحظہ سینہ کوبی سے فرصت ہمیں نہیں
یعنی کہ دل کے جانے کا ماتم بہت ہے یاں

ہم رہ روانِ راہِ فنا دیر رہ چکے
وقفہ بسانِ صبح کوئی دم بہت ہے یاں

اس بت کدے میں معنی کا کس سے کریں سوال
آدم نہیں ہے، صورتِ آدم بہت ہے یاں

عالم میں لوگ ملنے کی گوں اب نہیں رہے
ہر چند ایسا ویسا تو عالم بہت ہے یاں

ویسا چمن سے سادہ نکلتا نہیں کوئی
رنگینی ایک اور خم و چم بہت ہے یاں

اعجازِ عیسوی سے نہیں بحث عشق میں
تیری ہی بات جانِ مجسم بہت ہے یاں

میرے ہلاک کرنے کا غم ہے عبث تمہیں
تم شاد زندگانی کرو، غم بہت ہے یاں

دل مت لگا رُخِ عرق آلودہ یار سے
آئینے کو اُٹھا کہ زمیں نم بہت ہے یاں

شاید کہ کام صبح تک اپنا کھنچے نہ میر
احوال آج شام سے درہم بہت ہے یاں

وہ موج تبسم شگفتہ شگفتہ، وہ بھولا سا چہرہ کتابی کتابی

وہ موج تبسم شگفتہ شگفتہ، وہ بھولا سا چہرہ کتابی کتابی
وہ سنبل سے گیسو سنہرے سنہرے، وہ مخمور آنکھیں گلابی گلابی

کف دست نازک حنائی حنائی، وہ لب ہائے شیریں شہابی شہابی
وہ باتوں میں جادو اداؤں میں ٹونا، وہ دزدیدہ نظریں عقابی عقابی

کبھی خوش مزاجی، کبھی بے نیازی، ابھی ہوشیاری، ابھی نیم خوابی
قدم بہکے بہکے نظر کھوئی کھوئی، وہ مخمور لہجہ شرابی شرابی

نہ حرف تکلم، نہ سعی تخاطب، سر بزم لیکن بہم ہم کلامی
اِدھر چند آنسو سوالی سوالی، اُدھر کچھ تبسم جوابی جوابی

وہ سیلاب خوشبو گلستاں گلستاں، وہ سرو خراماں بہاراں بہاراں
فروزاں فروزاں جبیں کہکشانی، درخشاں درخشاں نظر ماہتابی

نہ ہونٹوں پہ سرخی، نہ آنکھوں میں کاجل، نہ ہاتھوں میں کنگن، نہ پیروں میں پائل
مگر حسن سادہ مثالی مثالی، جواب شمائل فقط لاجوابی

وہ شہر نگاراں کی گلیوں کے پھیرے، سر کوئے خوباں فقیروں کے ڈیرے
مگر حرف پرسش نہ اذن گزارش، کبھی نامرادی کبھی باریابی

یہ سب کچھ کبھی تھا، مگر اب نہیں ہے کہ آوارہ فرہاد گوشہ نشیں ہے
نہ تیشہ بدوشی، نہ خارہ شگافی، نہ آہیں نہ آنسو نہ خانہ خرابی

کہ نظروں میں اب کوئی شیریں نہیں ہے، جدھر دیکھیئے ایک مریم کھڑی ہے
نجابت سراپا، شرافت تبسم، بہ عصمت مزاجی، بہ عفّت مآبی

جو گیسو سنہرے تھے اب نُقرئی ہیں، جن آنکھوں میں جادو تھا اب با وضو ہیں
یہ پاکیزہ چہرے یہ معصوم آنکھیں، نہ وہ بے حجابی نہ وہ بے نقابی

وہ عشق مجازی حقیقت میں ڈھل کر تقدس کی راہوں پہ اب گامزن ہے
جو حسن نگاراں فریب نظر تھا، فرشتوں کی صورت ہے گردوں جنابی

وہ صورت پرستی سے اکتا گیا ہے، خلوص نظر اور کچھ ڈھونڈتا ہے
نہ موج تبسم، نہ دست حنائی، نہ مخمور آنکھیں گلابی گلابی

نہ دزدیدہ نظریں عقابی عقابی، نہ مخمور لہجہ شرابی شرابی
نہ سنبل سے گیسو سنہرے سنہرے، نہ لب ہائے شیریں شہابی شہابی

جمعرات، 28 مارچ، 2013

گلوں سے دوستی ہے ، شبنم ستانوں میں رہتا ہوں

گلوں سے دوستی ہے ، شبنم ستانوں میں رہتا ہوں
بڑے دلچسپ اور شاداب رومانوں میں رہتا ہوں

کنارے پر نہ کیجئے گا زیادہ جستجو میری
کہ میں لہروں کا متوالا ہوں ، طوفانوں میں رہتا ہوں

میں دانستہ حقائق کی ڈگر سے لوٹ آیا ہوں
میں تفریحاً طرب انگیز افسانوں میں رہتا ہوں

پتہ پوچھے کوئی میرا عدم تو اس سے کہہ دینا
میں سچے اور بھولے بھالے انسانوں میں رہتا ہوں 

پیر، 25 مارچ، 2013

دل کا دیار خواب میں، دور تلک گزر رہا

دل کا دیار خواب میں، دور تلک گزر رہا
پاؤں نہیں تھے درمیاں، آج بڑا سفر رہا

ہو نہ سکا کبھی ہمیں اپنا خیال تک نصیب
نقش کسی خیال کا، لوح خیال پر رہا

نقش گروں سے چاہیے، نقش و نگار کا حساب
رنگ کی بات مت کرو، رنگ بہت بکھر رہا

جانے گماں کی وہ گلی ایسی جگہ ہے کون سی
دیکھ رہے ہو تم کہ میں، پھر وہیں جا کے مر رہا

شہرِ فراق یار سے آئی ہے اک خبر مجھے
کوچہ یاد یار سے، کوئی نہیں اُبھر رہا

ہر خراش نفس ، لکھے جاؤں

ہر خراش نفس ، لکھے جاؤں
بس لکھے جاؤں ، بس لکھے جاؤں

ہجر کی تیرگی میں روک کے سانس
روشنی کے برس لکھے جاؤں

ان بسی بستیوں کا سارا لکھا
ڈھول کے پیش و نظر پس لکھے جاؤں

مجھ ہوس ناک سے ہے شرط کہ میں
بے حسی کی ہوس لکھے جاؤں

ہے جہاں تک خیال کی پرواز
میں وہاں تک قفس لکھے جاؤں

ہیں خس و خار دید ، رنگ کے رنگ
رنگ پر خارو خس لکھے جاؤں

عشق کی مار بڑی دردیلی عشق میں جی نہ پھنسانا جی

عشق کی مار بڑی دردیلی عشق میں جی نہ پھنسانا جی
سب کچھ کرنا، عشق نہ کرنا، عشق سے جان بچانا جی

وقت نہ دیکھے، عمر نہ دیکھے، جب چاہے مجبور کرے
موت اور عشق کے آگے تو کوئی چلے نہ بہانہ جی

عشق کی ٹھوکر موت کی ہچکی دونوں کا ہے ایک اثر
ایک کرے گھر گھر رسوا، ایک کرے افسانہ جی

عشق کی نعمت پھر بھی یارو! ہر نعمت پر بھاری ہے
عشق کی ٹیسیں دیں خدا کی، عشق سے کیا گھبرانا جی

عشق کی نظروں میں یکساں، کعبہ کیا، بت خانہ کیا
عشق میں دنیا، عقبہ کیا ہے، کیا اپنا، بیگانہ جی

راہ تکے ہیں پی کے نگر کی، آگ پہ چل کر جانا ہے
عشق ہے سیڑھی پی کے نگر کی جو چاہو تو نبھانا جی

طرز! بہت دن جھیل چکے تم دنیا کی زنجیروں کو
توڑ کے پنجرہ اب تو تمہیں ہے دیس پیا کے جانا جی

بدھ، 20 مارچ، 2013

خبر اب تو لے بے مروت کسی کی

خبر اب تو لے بے مروت کسی کی
چلی جان تیری بدولت کسی کی

مجھے حشر میں پیش داور جو دیکھا
ذرا سی نکل آئی صورت کسی کی

خدا کے لئے یوں نہ ٹھکرا کے چلئے
کہ پامال ہوتی ہے تربت کسی کی

ذرا روٹھ جانے پہ اتنی خوشامد
قمرتم بگاڑو گے عادت کسی کی

دیہاڑی دار

اک دیہاڑے انکھاں والا اک مزدور
سڑک کنارے
وانگ کبوتر اکھاں میٹی
تیلے دے نال ماں دھرتی دا سینہ پھولے
خورے کنک دادا نہ لبھے
رمبا کہئی تے چھینی ہتھوڑا
گینتی اپنے اگے دھر کے
چوری اکھیں ویکھ کے اپنے آل دوالے
کر کے موہنہ اسماناں ولے
ہولی ہولی بھیڑے بھیڑے اکھر بولے
اچی اچی
اچیا ربا، سچیا ربا، چنگیا ربا
تو نہیوں ڈبیاں تارن والا
ساری دنیا پالن والا
جتھوں کل ادھار اے کھاہدا
اوتھے وی اے اج دا وعدہ
میری اج دیہاڑی ٹٹی
میرے دل چوں تیری چھٹی
اچیا ربا سچیا ربا چنگیا ربا
پنجاں کلیاں مگروں جہیڑا
میرے ویہڑے کھڑیا پھل
باہحھ دوائیوں
پونی ورگا ہوندا جاوے
میرے مستوبل کا دیوا
ویکھیں کدھرے بجھ نہ جاوے
اچیا ربا سچیا ربا چنگیا ربا
اج نئیں جانا خالی ہتھ
ویچاں بھانویں اپنی رتھ

تجھ کو معلوم ہی نہیں تجھ کو بھلا کیا معلوم

تجھ کو معلوم ہی نہیں تجھ کو بھلا کیا معلوم
تیرے چہرے کے یہ سادہ سے اچھوتے سے نقوش
میرے تخیل کو کیا رنگ عطا کرتے ہیں
تیری زلفیں تیری آنکھیں تیرے عارض تیرے ہونٹ
کیسی انجانی سی معصوم خطا کرتے ہیں
خلوت بزم ہو یا جلوت تنہائی ہو
تیرا پیکر میری نظروں میں اتر آتا ہے
کوئی ساعت ہو کوئی فکر ہو کوئی ماحول
مجھ کو ہر سمت تیرا حسن نظر آتا ہے
چلتے چلتے جو قدم آپ ٹھٹھک جاتے ہیں
سوچتا ہوں کہیں تو نے پکارا تو نہیں
گم سی ہو جاتی ہیں نظریں تو خیال آتا ہے
اس میں پنہاں تیری آنکھوں کا اشارہ تو نہیں
دھوپ میں سایہ بھی ہوتا ہے گریزاں جس دم
تیری زلفیں میرے شانوں پر بکھر جاتی ہیں
تھک کہ جب سر کسی پتھر پہ ٹکا دیتا ہوں
تیری بانہیں میری گردن میں اتر آتی ہیں
سر بالیں کوئی بیٹھا ہے بڑے پیار کے ساتھ
میرے بکھرے ہوئے الجھے ہوئے بالوں میں کوئی
انگلیاں پھیرتا جاتا ہے بڑے پیار کے ساتھ
کس کو معلوم ہے میرے خوابوں کی تعبیر ہے کیا
کون جانے میرے غم کی حقیقت کیا ہے
میں سمجھ لوں بھی اگر اس کو محبّت کا جنوں
مجھ کو اس عشق جنوں خیز سے نسبت کیا ہے

یہ گیت حمایت علی نے لکھا تھا۔ جس کو مزید خوبصورتی سلیم رضا نے اپنی آواز کی بدولت بخشی۔ 1962 میں ریلیز ہونے والی فلم آنچل میں شامل کیا گیا۔ جس میں درپن مرکزی کردار ادا کر رہے تھے۔

تلخی زبان تک تھی وہ دل کا برا نہ تھا

تلخی زبان تک تھی وہ دل کا برا نہ تھا
مجھ سے جدا ہوا تھا مگر بے وفا نہ تھا

طرفہ عذاب لائے گی اب اس کی بددعا
دروازہ جس پہ شہر کا کوئی کھلا نہ تھا

شامل تو ہوگئے تھے سبھی اک جلوس میں
لیکن کوئی کسی کو بھی پہچانتا نہ تھا

آگاہ تھا میں یوں تو حقیقت کے راز سے
اظہار حق کا دل کو مگر حوصلہ نہ تھا

جو آشنا تھا مجھ سے بہت دور رہ گیا
جو ساتھ چل رہا تھا مرا آشنا نہ تھا

سب چل رہے تھے یوں تو بڑے اعتماد سے
لیکن کسی کے پاؤں تلے راستہ نہ تھا

ذروں میں آفتاب نمایا تھے جن دنوں
 واصف وہ کیسا دور تھا وہ کیا زمانہ تھا

سرکار! اب جنوں کی ہے سرکار کچھ سنا

سرکار! اب جنوں کی ہے سرکار کچھ سنا
ہیں بند سارے شہر کے بازار کچھ سنا

شہر قلندراں کا ہوا ہے عجیب طور
سب ہیں جہاں پناہ سے بیزار کچھ سنا

مصروف کوئی کاتبِ غیبی ہے روز و شب
کیا ہے بھلا نوشتۂ دیوار کچھ سنا

آثار اب یہ ہیں کہ گریبان شاہ سے
الجھیں گے ہاتھ برسرِ دربار کچھ سنا

اہل ستم سے معرکہ آرا ہے اک ہجوم
جس کو نہیں ملا کوئی سردار کچھ سنا

خونیں دِلان مرحلہ امتحاں نے آج
کیا تمکنت دکھائی سرِ وار کچھ سنا

کیا لوگ تھے کہ رنگ بچھاتے چلے گئے
رفتار تھی کہ خون کی رفتار کچھ سنا

اتوار، 17 مارچ، 2013

وہ کہکشاں وہ رہ ِ رقص ِ رنگ ہی نہ رہی

وہ کہکشاں وہ رہ ِ رقص ِ رنگ ہی نہ رہی
ہم اب کہیں بھی رہیں، جب تری گلی نہ رہی

تمہارے بعد کوئی خاص فرق تو نہ ہوا
جزیں قدر وہ پہلی سی زندگی نہ رہی

یہ ذکر کیا کہ خرد میں بہت تصنع ہے
ستم یہ ہے جنوں میں بھی سادگی نہ رہی

قلمرو ِ غم ِ جاناں ہوئی ہے جب سے تباہ
دل و نظر کی فضاوں میں زندگی نہ رہی

نکال ڈالیے دل سے ہماری یادوں کو
یقین کیجیے ہم میں وہ بات ہی نہ رہی

جہاں فروز تھا یادش بخیر اپنا جنوں
پھر اُس کے بعد کسی شے میں دل کشی نہ رہی

دکھائیں کیا تمہیں داغوں کی لالہ انگیزی
گزر گئیں وہ بہاریں، وہ فصل ہی نہ رہی

وہ ڈھونڈتے ہیں سر جادہ امید کسے
وہاں تو قافلے والوں کی گرد بھی نہ رہی

بدھ، 6 مارچ، 2013

وقت درماں پذیر تھا ہی نہیں

وقت درماں پذیر تھا ہی نہیں
دل لگایا تھا، دل لگا ہی نہیں

ترکِ الفت ہے کس قدر آسان
آج تو جیسے کچھ ہوا ہی نہیں

ہے کہاں موجۂ صبا و شمیم
جیسے تو موجۂ صبا ہی نہیں

جس سے کوئی خطا ہوئی ہو کبھی
ہم کو وہ آدمی ملا ہی نہیں

وہ بھی کتنا کٹھن رہا ہو گا
جو کہ اچھا بھی تھا ، برا بھی نہیں

کوئی دیکھے تو میرا حجرۂ ذات
یاں سبھی کچھ وہ تھا جو تھا ہی نہیں

ایک ہی اپنا ملنے والا تھا
ایسا بچھڑا کہ پھر ملا ہی نہیں

منگل، 5 مارچ، 2013

اس نے ہنسی ہنسی میں محبت کی بات کی

آنکھوں میں آنسوؤں کو ابھرنے نہیں دیا
مٹی میں موتیوں کو بکھرنے نہیں دیا

جس راہ پر پڑے تھے ترے پاؤں کے نشاں
اس راہ سے کسی کو گزرنے نہیں دیا

چاہا تو چاہتوں کی حدوں سے گزر گئے
نشہ محبتوں کا اترنے نہیں دیا

ہر بار ہے نیا ترے ملنے کا ذائقہ
ایسا ثمر کسی بھی شجر نے نہیں دیا

اتنے بڑے جہان میں جائے گا تو کہاں
اس اک خیال نے مجھے مرنے نہیں دیا

ساحل دکھائی دے تو رہا تھا بہت قریب
کشتی کو راستہ ہی بھنور نے نہیں دیا

جتنا سکوں ملا ہے ترے ساتھ راہ میں
اتنا سکون تو مجھے گھر نے نہیں دیا

اس نے ہنسی ہنسی میں محبت کی بات کی
میں نے عدیم اس کو مکرنے نہیں دیا
اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔