منگل، 18 جون، 2013

چلو بادِ بہاری جا رہی ہے

چلو بادِ بہاری جا رہی ہے
پِیا جی کی سواری جا رہی ہے

شمالِ جاودانِ سبز جاں سے
تمنا کی عماری جا رہی ہے

فغاں اے دشمنی دارِ دل و جاں
مری حالت سُدھاری جا رہی ہے

جو اِن روزوں مرا غم ہے وہ یہ ہے
کہ غم سے بُردباری جا رہی ہے

ہے سینے میں عجب اک حشر برپا
کہ دل سے بے قراری جا رہی ہے

میں پیہم ہار کر یہ سوچتا ہوں
وہ کیا شے ہے جو ہاری جا رہی ہے

دل اُس کے رُوبرو ہے اور گُم صُم
کوئی عرضی گزاری جا رہی ہے

ہے پہلو میں ٹَکے کی اک حسینہ
تری فرقت گزاری جا رہی ہے

وہ سیِّد بچّہ ہو اور شیخ کے ساتھ
میاں عزّت ہماری جا رہی ہے

ہے برپا ہر گلی میں شورِ نغمہ
مری فریاد ماری جا رہی ہے

وہ یاد اب ہو رہی ہے دل سے رخصت
میاں پیاروں کی پیاری جا رہی ہے

دریغا! تیری نزدیکی میاں جان
تری دوری پہ واری جا رہی ہے

بہت بدحال ہیں، بستی، ترے لوگ
تو پھر تُو کیوں سنواری جا رہی ہے

تری مرہم نگاہی اے مسیحا!
خراشِ دل پہ واری جا رہی ہے

خرابے میں عجب تھا شور برپا
دلوں سے انتظاری جا رہی ہے

جمعہ، 7 جون، 2013

آج بھی تشنگی کی قسمت میں

آج بھی تشنگی کی قسمت میں
سم قاتل ہے سلسبیل نہیں

سب خدا کے وکیل ہیں لیکن
آدمی کا کوئی وکیل نہیں

ہے کشادہ ازل سے روئے زمیں
حرم و دیر بے فصیل نہیں

زندگی اپنے روگ سے ہے تباہ
اور درماں کی کچھ سبیل نہیں

تم بہت جاذب و جمیل سہی
زندگی جاذب و جمیل نہیں

مت کرو بحث ہار جاؤ گی
حسن اتنی بڑی دلیل نہیں

ہر ایک بات نہ کیوں زہر سی ہماری لگے

ہر ایک بات نہ کیوں زہر سی ہماری لگے
کہ ہم کو دست زمانہ کے زخم کاری لگے

اداسیاں ہوں‌ مسلسل تو دل نہیں‌ روتا
کبھی کبھی ہو تو یہ کیفیت بھی پیاری لگے

بظاہر ایک ہی شب ہے فراق یار مگر
کوئی گزارنے بیٹھے تو عمر ساری لگے

علاج اس دل درد آشنا کا کیا کیجئے
کہ تیر بن کے جسے حرف غمگساری لگے

ہمارے پاس بھی بیٹھو بس اتنا چاہتے ہیں
ہمارے ساتھ طبیعت اگر تمہاری لگے

فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ
یہ کیا ضرور وہ صورت سبھی کو پیاری لگے
اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔