پیر، 29 جولائی، 2013

وہ خط کے پرزے اُڑا رہا تھا

وہ خط کے پرزے اُڑا رہا تھا
ہواؤں کا رخ دِکھا رہا تھا

بتاؤں کیسے وہ بہتا دریا
جب آ رہا تھا تو جا رہا تھا

کہیں مرا ہی خیال ہو گا
جو آنکھ سے گرتا جا رہا تھا

کچھ اور بھی ہو گیا نمایاں
میں اپنا لکھا مٹا رہا تھا

وہ جسم جیسے چراغ کی لَو
مگر دھواں دِل پہ چھا رہا تھا

منڈیر سے جھک کے چاند کل بھی
پڑوسیوں کو جگا رہا تھا

اسی کا ایماں بدل گیا ہے
کبھی جو میرا خدا رہا تھا

وہ ایک دن ایک اجنبی کو
مری کہانی سنا رہا تھا

وہ عمر کم کر رہا تھا میری
میں سال اپنا بڑھا رہا تھا

خدا کی شاید رضا ہو اس میں
تمہارا جو فیصلہ رہا تھا​

بدھ، 24 جولائی، 2013

پتھر ہے تیرے ہاتھ میں یا کوئی پھول ہے

پتھر ہے تیرے ہاتھ میں یا کوئی پھول ہے
جب تو قبول ہے، تیرا سب کچھ قبول ہے 

پھر تو نے دے دیا ہے نیا فاصلہ مجھے
سر پر ابھی تو پچھلی مسافت کی دھول ہے

تو دل پہ بوجھ لے کے ملاقات کو نہ آ
ملنا ہے اس طرح تو بچھڑنا قبول ہے

تو یار ہے تو اتنی کڑی گفتگو نہ کر
تیرا اصول ہے تو میرا بھی اصول ہے

لفظوں کی آبرو کو گنواؤ نہ یوں عدیمؔ
جو مانتا نہیں، اسے کہنا فضول ہے

یہ وقت وہ ہے جب کہ انا موم ہو چکی
اس وقت کوئی آئے، کوئی بھی، قبول ہے

آ کے ہنسی لبوں پہ بکھر بھی گئی عدیمؔ
جانے زیاں ہے یہ کہ خوشی کا حصول ہے​

شوق کیا کیا دکھائے جاتا ہے

شوق کیا کیا دکھائے جاتا ہے
دل تجھے بھی بھلائے جاتا ہے

اگلے وقتوں کی یادگاروں کو
آسماں کیوں مٹائے جاتا ہے

سوکھتے جارہے ہیں گل بوٹے
باغ کانٹے اگائے جاتا ہے

جاتے موسم کو کس طرح روکوں
پتّہ پتّہ اڑائے جاتا ہے

حال کس سے کہوں کہ ہر کوئی
اپنی اپنی سنائےجاتا ہے

کیا خبر کون سی خوشی کے لیے
دل یونہی دن گنوائے جاتا ہے

رنگ پیلا ہے تیرا کیوں ناصرؔ
تجھے کیا رنج کھائے جاتا ہے

منگل، 23 جولائی، 2013

اک پاگل لڑکی کو بھُلا کر اب تو بڑے آرام سے ہو

جون! تمہیں یہ دور مبارک، دُور غمِ ایاّم سے ہو
اک پاگل لڑکی کو بھُلا کر اب تو بڑے آرام سے ہو
ایک ادھوری انگڑائی کے مستقبل کا خون کیا
تُم نے اس کا دل رکھا یا اس کے دل کا خون کیا
یہ جو تمہارا سحرِ تکلّم حسن کو کرتا ہے مسحور
بانو، جمال آرا اور فضّہ کے حق میں ہے اک ناسور

خونِ جگر کا جو بھی فن ہے سچ جانو، وہ جھوٹا ہے

وہ جو بہت سچ بول رہا ہے ، سچ جانو وہ جھوٹا ہے
قتلِ سیزر پر انطوائی جو کچھ بولا جھوٹ تھا وہ
یعنی لبوں نے جتنا کچھ زخموں کو تولا جھوٹ تھا وہ
میّت پر سُہراب کی فردوسی نے ناٹک کھیلا تھا
اس کے ہونٹوں پر تھے نالے دل میں فن کا میلا تھا

حسن بَلا کا قاتل ہو پر آخر کو بیچارا ہے
عشق تو وہ قتّال ہے جس نے اپنے کو بھی مارا ہے
یہ دھوکے دیتا آیا ہے دل کو بھی دنیا کو بھی
اس کے جھوٹ نے خوار کیا ہے صحرا میں لیلیٰ کو بھی
دل دکُھتا ہے کیسے کہوں مین،چل سے بے چل ہوتے ہیں
جذبے میں جو بھی مرتے ہیں، وہ سب پاگل ہوتے ہیں

تھی جو اک صیّاد تمہاری، ٹھہری ہے اک صیدِ زبوں
یعنی اب ہونٹوں سے مسیحا کے رِستا ہے اکثر خون
خون کی تھوکن ہے جو تمہاری، کیا ہے وہ اک پیشہ کہ نہیں
تم ہو مسیحاوٗں کے حق میں قاتل اندیشہ کہ نہیں
فن جو جُز فن کچھ بھی نہ ہو، وہ اک مہلک خوش باشی ہے
کارِ سُخن پیشہ ہے تمہارا جو خونی عیّاشی ہے

جون ، ہو تم جو بند بَلا کے "عشاقی" میں چاق بھی ہو
تم جذبوں کے سوداگر ہو اور ان کے قزّاق بھی ہو
عشق کی یاوہ سرائی آخر رد بھی ہونا چاہیے نا
آخر کو بکواس کی کوئی حد بھی ہونا چاہیے نا
میں جو ہوں باتوں کا ہوں میں، اک خاوند، اک خدا
لڑکی کو پَرچانے کا فن کس نے جانا میرے سِوا

جان، تمہی میرا سب کچھ ہو، جی نہیں سکتا میں تم بن
لمحوں کی پیکار ہے جن میں، بس ہوں سسکتا میں تم بن
سُنتے ہو وہ جان تمہاری، بس اب گھر تک زندہ ہے
گھر کیا، وہ اُٹھ بھی نہیں سکتی، بس بستر تک زندہ ہے۔۔۔

جمعہ، 19 جولائی، 2013

شب خون

یاد کی شہ رگوں کا کنوارہ لہو
مقتلِ وقت کے فرش پر سو گیا
یاد کی شکل پر جُھرّیاں آ گئیں
یاد کی آنکھ کا نور کم ہو گیا
یاد کی پشت خم ہو گئی ہاتھ میں
اک عصائے فراموش گاری لیئے
یاد لمحوں کے سیلاب میں کھو گئی
یاد آہستہ آہستہ کم ہو گئی

اور پھر یوں ہُوا، دن گزرتے گئے

اُس نے سوچا کہ رُسوائی کیوں مول لیں
کیوں نہ سونپی ہوئی دولتیں چھین لیں
دوریاں بخش دیں قربتیں چھین لیں
میں نے پھر دل سے در کے سب راستے
وا کیئے ساری پونجی کو یکجا کیا
کیسی تہذیب کیسا کھنڈر بن گئی
ہائے کس سلطنت کو زوال آگیا
چار سو غم کے شب خوں کی فوج تھی
چار سو نارسائی کے لشکر ملے
اک ارم دُور تک زیرِ تعمیر تھا
دور تک خشک گہرے سمندر ملے
چند صبحیں ملیں ایک سورج ملا
چند شاموں کی آنکھوں میں سرخی ملی
چند راتوں کی کچھ چاندنی سی ملی
نیم قوسیں ملیں قرصِ مہتاب کی
میری بیدار آنکھوں میں گُھلنے لگیں
کانپتی دھندلی پرچھائیاں خواب کی
ناز کے قصر پر کوئی آہٹ ملی
راز کے سرخ ریشمی پردے ہلے
درد کے قیمتی پتھروں کے تلے
اشک کے موتیوں کے خزانے ملے
پھر سے جینے کی جیسے للک جاگ اُٹھی
میری خوابیدہ تقدیر تک جاگ اُٹھی
ہوش آیا تو اپنے لبوں پہ مجھے
ایک ہاری ہوئی مسکراہٹ ملی

-------------------

دل نے پھر اپنا شیرازہ برہم کیا
غم نے روکا مگرجاں نے ماتم کیا
میں نے کیا جانے کیا کیا اُسے تج دیا
وہ کھلونے ابھی تک جو ٹوٹے نہ تھے
اُن سوالوں کو بھی میں نے لوٹا دیا
جو میرے عشق نے اُس سے پوچھے نہ تھے
میں نےوہ شب و روز بھی اُسے دے دئیے
جو میرے تھے مگر صرف میرے نہ تھے
میں نے وہ کشتیاں بھی اُسے بخش دیں
بادباں جن کے اب تک لپیٹے نہ تھے
سارےپتوار قرباں کیئے جن کے تن
دھوپ میں ریگِ ساحل سوکھے نہ تھے
میں نے وہ رہگزر بھی اُسے سونپ دی
جس پہ اُس کے نشانِ کفِ پا نہ تھے
میں نے ایسے بھی سنّاٹے واپس کیئے
ہم جہاں ساتھ رہتے تو تنہا نہ تھے
میں نے وہ ساری سرگوشیاں پھیر دیں
جن کے الفاظ میں آج تک جان تھی
اک کھنک اُس کے لہجے کی محفوظ تھی
جو میری روح و دل کی نگہبان تھی
میں نے اُن موتیوں کو بھی بکھرا دیا
عشقِ تنہا کو کچھ اور تنہا کیا

-----------------

اور پھر یوں ُہوا،  دن گزرتے گئے

میں نے دیکھا کہ ہر جادہء زندگی
ایک زنبیل میں میری دولت لئے
اجنبی تھا کوئی سر کو او نچا کئے
جا رہا تھا سوئے منزلِ دلد ہی
ایک سایہ بھی تھا پیچھے پیچھے کہیں
کون ہو گا بھلا وہ، نہیں وہ نہیں

1969 سے عمر اعظم صاحب کی ڈائری میں تحریر شدہ نظم ۔  
اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔