جمعرات، 31 اکتوبر، 2013

لذّتِ شام، شبِ ہجر خدا داد نہیں

لذّتِ شام، شبِ ہجر خدا داد نہیں
اِس سے بڑھ کر ہمیں رازِ غمِ دل یاد نہیں

کیفیت خانہ بدوشانِ چمن کی مت پُوچھ
یہ وہ گُلہائے شگفتہ ہیں جو برباد نہیں

یک ہمہ حُسنِ طلب، یک ہمہ جانِ نغمہ
تم جو بیداد نہیں ہم بھی تو فریاد نہیں

زندگی سیلِ تن آساں کی فراوانی ہے
زندگی نقش گرِ خاطرِ ناشاد نہیں

اُن کی ہر اِک نگہ آموختۂ عکسِ نشاط
ہر قدم گرچہ مجھے سیلیِ استاد نہیں

دیکھتے دیکھتے ہر چیز مٹی جاتی ہے
جنّتِ حُسنِ نفَس و جنّتِ شدّاد نہیں

ہر جگہ حُسنِ فزوں اپنی مہک دیتا ہے
باعثِ زینتِ گُل تو قدِ شمشاد نہیں

خانہ سازانِ عناصر سے یہ کوئی کہہ دے
پُرسکوں آبِ رواں، نوحہ کناں باد نہیں

اللہ ولوں گن دی حفاظت

بوہت اُداس جدوں میں ہوواں سکھ دا سندیسہ آندا
مشکلاں وچ جدوں تھک جاواں کجھ غیب ولوں ہو جاندا
جدھروں مینوں خبر نئیں ہندی اودھروں حوصلہ آندا
ہنیریاں پچھماں سامنے پھُٹ دی پورباں ولوں لالی
آس نئیں میری ٹٹن دیندا ایس جہان دا والی
میریاں مدداں کر دی رہندی اک مخلوق خیالی

پیر، 28 اکتوبر، 2013

تم نے بدلے ہم سے گن گن کے لیے​


تم نے بدلے ہم سے گن گن کے لیے
ہم نے کیا چاہاتھا اس دن کے لیے
کچھ نرالا ہے جوانی کا بناؤ
شوخیاں زیور ہیں اس سن کے لیے
وصل میں تنگ آ کے وہ کہنے لگے
کیا یہ جوبن تھا اسی دن کے لیے
چاہنے والوں سے گر مطلب نہیں
آپ پھر پیدا ہوئے کن کے لیے
فیصلہ ہو آج میرا آپ کا
یہ اٹھا رکھا ہے کس دن کے لیے
دے مئے بے درد اے پیر مغاں
چاہیے اک پاک باطن کے لیے
دل کے لینے کو ضمانت چاہیے
اور اطمینان ضامن کے لیے
مے کشو مژدہ، اب آئی فصلِ گل
بلبلوں نے چونچ میں تنکے لیے
ہم نشینوں سے مرے کہتے ہیں وہ
چھوڑ دیں غیروں کو کیا ان کے لیے
ہیں رخِ نازک پہ گنتی کے نشاں
کس نے تیرے بوسے گن گن کے لیے
وہ نہیں سنتے ہماری کیا کریں
مانگتے ہیں ہم دعا جن کے لیے
آج کل میں داغؔ ہو گے کامیاب
کیوں مرے جاتے ہو دو دن کے لیے

جمعرات، 24 اکتوبر، 2013

بدکار از قلم واصف

بد کار-
جب میں سنِ بلوغت کو پہنچا تو کچھ انجانے الفاظ نے ذہنی توجہ کا گھیراؤ کیاجن میں سے ایک تھا "جسم فروش"- جب ذہنی پختگی اور معاشرتی شعور سے ہمکنار ہوا تودرج بالا لفظ اور اس کے مفہوم سے آشنا ہوا-
معلوم ہوا کہ جسم فروشی ایک باقاعدہ پیشہ بن  ہے اور کئی انسانی حقوق کی تنظیمیں اس پیشے کو نہ صرف سراہتی ہیں بلکہ اس میں شمار افراد کی حفاظت کے بھی کافی قوانین بن چکے ہیں- مغربی ممالک میں ان قوانین کی پاسداری نہ کرنا ایک سنگین جرم سے کم نہیں اور اس کی باقاعدہ سزا بھی ہے-
جسم فروش کا باہم تعلق بدکار سے ہوتا ہے جو محظ اپنی تسکین کے لیے کچھ روپے کے عوض کسی جسم فروش کا استعمال کرتا ہے- بد کار کی اسی پہچان سے میں برسوں سے آشنا تھا لیکن اک روز کچھ عجب ماجرا  ہوا جس نے میرے سوچنے کا انداز بدل دیا-
نئی سوچ کے ترازو میں اگرتولوں توبہت سی با وقار شخصیات شرافت کے زمرے سے خارج ہو جاتی ہیں- لیکن کیا میں صحیح سوچتا ہوں؟ میں اپنی قصیرالعلمی اور ناقص سوچ کے باعث ہر گز اپنے سوچنے کے انداز کو صحیح یا کسی اور کے سوچنے کے انداز کو غلط نہ کہوں گا- بلکہ یہ فیصلہ پڑھنے والے پر ہی چھوڑ دوں گا-
گھر میں لکڑی کا کچھ کام درپیش تھا، میں اتوار کے روز حسب عادت صبح صبح اٹھ چکا تھا اور دیگر افراد کو اٹھنے پر اکسا رہا تھا- بمشکل صبح کے دس بجے ناشتہ کر، سب کاموں کی فہرست بنا کر گھر سے نکلا- جو کام آج سب سے زیادہ ضروری تھا وہ لکڑی  کٹوا کر بےبی کاٹ کا فرشی تختہ بنوانا تھا- اسی کام کی غرض سی میں پنڈورہ چنگی چلا گیا اور اپنی خواہش کے کام کے بارے میں چند لکڑی کے ٹالوں پر یکے بعد دیگرے بیاں کیا- آخرایک ٹال کے سیلز ڈیسک پر بیٹھے آدمی (جو شاید اس ٹال کا منیجر تھا) نے میرا بیان کردہ کام کرنے کی ہامی بھر لی- جب پیسوں کا معاملہ طے پا گیا تو اس نے مجھے اندر چلے جانے کو کہ دیا اور ایک آدمی کو شیشہ والی کھڑکی سے میرے اندر آنے کے بارے میں مطلع  کیا۔
ٹال کے اندر  بے حد شور تھا، کان پڑی آواز سنائی نہ دے رہی تھی- میں نے یہ محسوس کیا کہ اگر میں نے یہاں تھوڑا اور وقت گزارہ تو قوت سماعت سے ہاتھ دھو بیٹھوں گا-
ایک آدمی سر سے لے کر پاؤں تک لکڑی کے برادے میں ڈوبا ہوا میری طرف بڑھا اور اندر کی طرف موجود ایک ہال کی طرف اشارہ کر کے آگے بڑھ گیا- میں اس کے تعاقب میں اسے ہال میں پہنچ گیا- اس جگہ شورکم تھا میں نے اکرم کو اپنے مطلوبہ کام کے بارے میں بتلایا-
"اکرم"، ہاں اس آدمی کا نام اکرم تھا، کسی نے اس کو اسی نام سے پکارا تھا- اس کی عمر لگ بھگ پچاس سال سے کچھ زیادہ ہو گی- اکرم بہت ہنر مند تھا، یہ میں اس کے کام کرنے کے انداز سے فورا سمجھ گیا تھا- اکرم دونوں کانوں سے تقریبا بہرہ تھا، اس کا ایک ہاتھ کلای تک کٹا ہوا تھا- اور لکڑی کے برادے سے اس کی آنکھیں دہکتے ہوئے انگارے کی مانند سرخ تھیں- اکرم میرے بتائے ہوئے کام کا آغاز کر چکا تھا- مجھے اس کو سمجھانے کے لیئے کافی اونچا بولنا پڑ رہا تھا- اپنی عادت سے مجبور مجھ سے رہا نہیں گیا اوراونچا بولنے کی زک کے  باوجود میں نے اکرم سے بات چیت شروع کی-
جب اکرم مجھ سے کچھ بے تکلف ہو گیا تو میں نے اس کے کٹے ہوئے ہاتھ کے بارے میں دریافت کیا- اکرم نے میری شکل غور سے دیکھی، کچھ سوچا اور بولا صاحب رہنے دیں کیا کریں گے جان کر- میرے اسرار پر اکرم نے بتایا کہ وہ جو باہر آپ آرا  چلتا ہوا دیکھ رہے ہیں نا اسی میں اک روز میرا ہاتھ پھنس کر کٹ گیا تھا- یہ کوئی بیس سال پرانی بات تھی- اکرم لگ بھگ پچیس سال سے اسی ٹال پر ملازم تھا- اکرم نے مزید بتایا کی اس کے دونوں کانوں کی قوت سماعت بھی اسی آرا مشین کے شور کی نظر ہو گئی ہے اور اب اس کو بہت کم سنائی دیتا ہے- اور آنکھیں بھی ساری رات پانی ٹپکاتی ہیں اور کسی نیم حکیم کی دوائی سے اس کی آنکھیں اور خراب ہو گئی ہیں-
میرے دریافت کرنے پر اکرم نے واضح کیا کہ مالک نے اس کے ہاتھ کٹ جانے کے حادثہ پر اس کی بیوی کو پانچ ہزار روپے دیے تھے  جب اکرم سرکاری ہسپتال میں زیر علاج تھا- اس کے علاوہ آج تک اکرم کواگرمزید کچھ دیا گیا تھا تو وہ تھیں کام سےنکال دینے کی دھمکیاں، جھڑکیاں، اضافی کام اور کم تنخواہ پر کام کرنے پردباؤ-
میرے دریافت کرنے پر اکرم نے واضح کیا کہ میرے کٹے ہوئے ہاتھ کی وجہ سے مجھے کوئی اور ٹال والا کام پر نہیں رکھتا- ایک ٹال پر مجھے نوکری ملی بھی تھی مگر جب اس ٹال کے مالک کو پتہ چلا تو اس نے میری نوکری چھڑوا دی کیونکہ اس ٹال کا مالک بھی میرے مالک کا رشتہ دار تھا-
ٹال کا مالک  اپنی چاندی کے لیےاکرم اور اس جیسے کئی اور ملازمین کے اجسام کا بلا تعلق استعمال پچھلے بیس سال سے کرتا آ رہا تھا- اکرم جو اپنے اعضا اس ٹال کے مالک کی ناکافی احتیاطی تدابیرکے باعث کھو بیٹھا تھا، اسی آس میں کام پر آ جاتا تھا کہ اس کے بچوں کو دو وقت کی روٹی میسر آ جائے گی- اس طرح کے جسمانی استعمال کہ جس کا معاوضہ بھی استعمال کے مطابق نہ ہو، میں بدکاری نہ کہوں تو کیا کہوں؟ بلکہ یہ فعل تو بدکاری سے بھے نچلے درجے کا ہے- بد کاری کرنے والا کم از کم جسم فروش کو اس کام کا طہ شدہ معاوضہ تو دے دیتا ہے- اکرم بیچارے کو تو اس کے کام کے مطابق معاوضہ بھی نہیں ملتا-
اکرم نے میرا فرشی تختہ تیار کر دیا تھا، اکرم کا کام بہت عمدہ تھا میں نے اس کو اپنی استطاعت کے مطابق چند روپے بطورانعام دیے اور باہرنکل آیا- کافی سوچا کہ پولیس میں رپورٹ درج کروا دوں، اکرم کو کہیں اور نوکری دلوا دوں یا کسی طرح اکرم کی مدد کروں پرافسوس کچھ قابل ذکرنہ کر سکا-
لیکن اس دن کے بعد سے ایسے تمام مالکان جو اپنے ملازمین سے ان کی استطاعت سے زیادہ کام لیتے ہیں،  ملازمین کی دوران کام حفاظت کو ترجیح نہیں دیتے، اپنی چاندی کے لیئے ملازمین کو اوور ٹائم لگانے پر مجبور کرتے ہیں اورملازمین کی محنت کا پھل اکیلے ہی ہڑپ کر جاتے ہیں ان کو میں اب نئی سوچ کے آئینے سے دیکھتا ہوں- اور آپ ایسے لوگوں کو کیسے دیکھتے ہیں یہ میں آپ پر چھوڑے دیتا ہوں----
                                                 

جمعرات، 10 اکتوبر، 2013

چند مشورے، کمپیوٹر سپورٹ ٹیم کی طرف سے

کچھ دن قبل میں اپنے کالج کے سرور کا معائینہ کرنے گیا تو وہاں تہہ خانے میں دیوار پر چپکا ایک کاغذ دکھائی دیا۔ اسے پڑھا تو وہ کچھ ایسے تھا

چند مشورے، کمپیوٹر سپورٹ ٹیم کی طرف سے

- جب آپ اپنے کمپیوٹر کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرانا چاہیں تو اس امر کو یقینی بنا لیں کہ آپ کے مانیٹر، کمپیوٹر اور ہر ممکنہ جگہ پر پھول، بچوں اور بلی و دیگر گھریلو جانوروں کی تصاویر لگی ہوں۔ ظاہر ہے کہ ہم لوگوں کی اپنی زندگی تو ہوتی نہیں، اس لئے یہ جان کر خوش ہو جائیں گے کہ آپ کی زندگی اتنی اچھی جا رہی ہے
- کمپیوٹر پر جب بھی کوئی ایرر میسج آئے تو اسے ہرگز ہرگز نہ نوٹ کریں۔ ہم لوگوں کے پاس قدرتی طور پر یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ ہم کمپیوٹر کی کالی سکرین دیکھ کر مسئلہ سمجھ جاتے ہیں
- جب ہم آپ کو بتائیں کہ ہم آ رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ کافی کے لئے چلے جائیے۔ آپ کے دفتر کے 300 افراد کے سکرین سیورز کے پاس ورڈ ہمیں یاد ہوتے ہیں
- جب بھی ہمیں کال کریں اور بتائیں کہ آپ کیا کرنا چاہ رہے ہیں تو ہرگز ہرگز یہ نہ بتائیے کہ کس ایرر کی وجہ سے آپ ایسا نہیں کر پا رہے
- جب ہم آپ کو ہنگامی بنیادوں پر کوئی ای میل کریں تو اسے پڑھے بغیر ضائع کر دیں۔ عین ممکن ہے کہ ہم محض ٹیسٹنگ کر رہے ہوں؟
- جب ہم لوگ کھانا کھا رہے ہوں تو اپنے سارے مسائل کی گٹھڑی لے کر ہمارے سامنے بیٹھ جائیے۔ ظاہر ہے کہ ہماری پیدائش صرف آپ کی خدمت کرنے کو ہوئی ہے تو پھر کیا حرج ہے
- جب کوئی کام عجلت میں کرانا چاہیں تو بڑی اے بی سی میں لکھ کر ای میل کریں۔ اس سے سرور کو پتہ چل جاتا ہے کہ یہ والی ای میل فوری طور پر ہمیں پہنچا دے
- جب فوٹو سٹیٹ مشین کام نہ کر رہی ہو تو ہمیں فون کر لیجئے۔ ظاہر ہے کہ فوٹو سٹیٹ مشین میں بھی کچھ نہ کچھ کمپیوٹر ہوتا ہی ہے
- جب آپ کے گھر میں کمپیوٹر پر کوئی مسئلہ پیدا ہو جائے تو فوراً ہمیں فون کر لیں۔ ہمارے پاس جادو کی چھڑی ہوتی ہے کہ ہم دفتر بیٹھے بیٹھے آپ کے گھریلو پی سی کو ٹھیک کر سکتے ہیں
- جب آپ کا مانیٹر خراب ہو جائے تو ہمیں کال کیجیئے۔ ظاہر ہے کہ ری سائیکل کی ذمہ داری بھی ہم لوگوں پر عائد ہوتی ہے
- جب بھی کمپیوٹر خراب ہو تو فوراً اسے اٹھا کر ہمارے دفتر چھوڑ جائیے۔ ہرگز یہ نہ بتائیے کہ آپ کا نام، عہدہ، ڈیپارٹمنٹ، فون نمبر یا یہ کہ خرابی کیا ہے۔ اس سے ہمیں مزید محنت کرنے کی ترغیب ملے گی
- جب ہم آپ کو یہ بتائیں کہ مانیٹر سکرین میں ہرگز سیاہی کا کارٹریج نہیں ہوتا، کبھی بھی یقین نہ کیجئے۔ اس سے ہمیں اپنے کام سے مزید لگن پیدا ہوتی ہے
- جب ہم وعدہ کریں کہ ہم تھوڑی دیر تک آ جائیں گے، فوراً سڑا سا منہ بنا کر پوچھیئے کہ "اوہو، تھوڑی دیر کتنے ہفتے بعد پوری ہوگی"۔ اس سے ہمارا دل چاہے گا کہ فوراً پہنچیں
- جب پرنٹر فائل کو پرنٹ نہ کرے تو کم از کم بیس بار مزید وہی فائل دوبارہ بھیجیں۔ اکثر بلیک ہول آپ کی فائلوں کو نگل جاتے ہیں۔ بیس بار بھیجنے سے کوئی نہ کوئی فائل عین ممکن ہے کہ بلیک ہول سے بچ جائے؟
- اگر بیس بار بھیجنے پر بھی پرنٹر کام نہ کرے تو پھر اپنے دفتر کے دیگر 69 پرنٹروں کو یہ فائل بھیج دیجیئے۔ ظاہر ہے کہ کوئی نہ کوئی پرنٹر تو بلیک ہول کی زد سے باہر ہوگا
- کبھی بھی، کسی بھی قیمت پر، کمپیوٹر یا پروگرام کے حصوں کے نام نہ یاد کیجئے۔ جب آپ فون پر ہمیں کہیں گے کہ "یار یہ کام نہیں کر رہا" ہمیں فوراً علم ہو جائے گا کہ خرابی کہاں ہے
- پروگرام یا کمپیوٹر پر موجود ہیلپ کو کبھی بھول کر بھی ہاتھ نہ لگائیے۔ یہ ہیلپ صرف ذہنی طور پر معذور افراد کے لئے بنائی جاتی ہے اور اس میں رنگ برنگے کارٹون ہی تو ہوتے ہیں
- اگر ماؤس کی تار بار بار کی بورڈ یا دیگر امور میں حرج پیدا کر رہی ہو تو اسے مانیٹر کے نیچے دبا دیں۔ ظاہر ہے کہ بیس کلو جتنا وزنی مانیٹر ماؤس کی تار کا کیا بگاڑ سکتا ہے
- اگر سپیس بار کام چھوڑ جائے تو اس کا الزام ہمارے سر لگا دیں کہ دو ہفتے قبل ہم نے ونڈوز کو اپ ڈیٹ کیا تھا جس کے بعد یہ خرابی ہوئی ہے
- کیا آپ کو علم ہے کہ آپ کے کی بورڈ کی کیز کو ڈبل روٹی کے ٹکڑوں اور پیپسی اور کافی کے قطروں سے کتنی محبت ہے
- جب پاپ اپ سکرین پر لکھا آئے کہ کیا آپ واقعی یہ کام کرنا چاہتے ہیں، فوراً یس کا بٹن دبا دیں۔ خوامخواہ پیغام پڑھنے کا فائدہ؟
- جب ہم میں سے کوئی بھی بندہ فون پر اپنے گھر بات کر رہا ہو تو فوراً بغیر پوچھے میز کے کنارے پر ٹک جائیے اور ہمیں گھورتے رہیئے۔ ظاہر ہے کہ ہماری اپنی تو کوئی زندگی ہے ہی نہیں
- جب ہم آپ کو کسی تکنیکی تفصیل سے آگاہ کریں تو فوراً جماہی لے کر کہیئے "یار یہ سب بکواس ہے۔ مجھے ککھ پلے نہیں پڑ رہا"۔ ہم آپ کو کیسے بتائیں کہ ہماری محنت کو جب بکواس کہا جائے تو ہمیں کتنی دلی خوشی ہوتی ہے
- جب پرنٹر کا سیاہی کا کارٹریج بدلنا ہو تو فوراً ہمیں فون کیجیئے۔ ایچ پی کمپنی کا حکم ہے کہ اتنا مشکل کام صرف وہی افراد کر سکتے ہیں جن کے پاس کوانٹم مکینکس کے مضمون میں پی ایچ ڈی کی ڈگری ہو
- جب آپ کو مطلوبہ بندہ نہ مل رہا ہو تو ہمیں فون کر کے تلاش کرنے پر لگا دیجئے
- جب کئی برس قبل ناکارہ کمپیوٹر کا پاس ورڈ یاد نہ ہو تو فوراً ہمیں فون کیجئے۔ ہم لوگ پیدائشی ہیکر ہوتے ہیں
- جب کمپیوٹر کام چھوڑ جائے تو سیکریٹری کو فون کر کے حکم دیجیئے کہ وہ ہمیں اس بارے بتائے۔ ظاہر ہے کہ سیکریٹری کو اپنے کمرے میں بیٹھے بٹھائے آپ کے کمپیوٹر کی خرابی کے بارے تمام تر تفصیلات پتہ ہوں گی
- جب آپ کو کوئی بڑی وڈیو فائل جو کئی میگا بائٹس پر مشتمل ہو، ملے تو فوراً پورے دفتر کو ای میل میں فارورڈ کر دیں۔ ظاہر ہے کہ اس سے ہمارے انٹرانیٹ پر کوئی فرق نہیں پڑنا اور ہمارے پاس ڈسک پر ہمیشہ ان فائلوں کے لئے جگہ موجود رہتی ہے
- جب آفس میں رش لگا ہو، عین اسی وقت کئی سو یا اگر ممکن ہو تو ہزار دو ہزار صفحات پرنٹ کرنا شروع کر دیں۔ ظاہر ہے کہ آپ سے زیادہ پرنٹر پر کس کا حق ہے
- جب کمپیوٹر سے متعلق کوئی چیز پوچھنی ہو تو اس کا نام وغیرہ ہرگز یاد نہ کریں۔ بار بار یہی کہتے رہیں کہ وہ کیا بات تھی جو میں نے پوچھنی تھی
- ظاہر ہے ہم جیسے نکمے بندے فوری تو مدد کو نہیں پہنچ سکتے۔ آپ خود مسئلہ حل کرنے کی کوشش کیجئے۔ بعد ازاں آپ کے پیدا کردہ مسائل کو حل کرنے اور اصل مسئلے تک پہنچنے تک ہم کافی چست و چالاک ہو چکے ہوں گے
- کبھی یہ نہ بتائیے کہ آپ نے کیا کیا۔ بس یہی کہہ دینا کافی ہے کہ "یہ خود ہی بند ہو گیا ہے"

پیر، 7 اکتوبر، 2013

شاید میں تھک گیا ہوں از قلم واصف

گھڑی کی سوئیاں لگ بھگ چھ بجا رہی تھیں، سکرم میٹنگ کا اختتام ہوااور آج میں مزید بیٹھنے کے موڈ میں نہ تھا کیونکہ تھکاوٹ کی وجہ ذہن پر بھی بوجھ محسوس کر رہا تھا- یہ تھکن صرف آج کی نہیں تھی، دفتر میں موجودہ ریلیز (جو کہ پچھلے تقریبا آٹھ ماہ سے جاری تھی) میں کام کے پریشر اورلیٹ سٹنگ معمول بن چکا تھا-
میں نے لیپ ٹاپ کا بیگ اٹھایا اورلفٹ ایریا میں جا پہنچا- آج لفٹ ایریا میں لوگوں کا ہجوم تھا- میں نے سیڑھیوں سے جانے کا ارادہ کیا اورلفٹ میں داخل ہو گیا- بی فور فلور پر پہنچ کر اپنی کار کی پچھلی سیٹ پر آئی پیڈ رکھا، موٹر سایکل کو کک ماری اور گھر کی راہ لی- راستہ میں اپنی بیوی (جوکہ گزشتہ رات میرے جلد سوجانے کی وجہ سے نالاں تھی) کے لیےکچھ کھجوریں خرید لیں-
 گھرپہنچ کر پکوڑوں کا لفافہ اپنی بیوی کو تھمایا اور والدہ گرامی سے علیک سلیک کرنے کے بعد اپنے کمرہ میں پہنچ چارپائی پر لیٹ گیا- میں کافی تھکن محسوس کر رہا تھا، بیوی کچن میں چلی گئی اور میں تھوڑی دیر لیٹنے کے بعد ڈبل بیڈ سے اٹھا اور نہانے کا ارادہ کیا، لیکن یاد آیا کہ صبح گیزر چلانا بھول گیا تھا اس لیے پانی ٹھنڈا ہی آ رہا ہو گا- مرتا کیا نہ کرتا، بالکنی کا دروازہ کھولا اورشاورکے نیچے پانی کھول کر کھڑا ہو گیا- باتھ ٹب میں لیٹے گرما گرم پانی میری سے مجھے کافی سکون مل رہا تھا-
نہانے سے فارغ ہو کر بھوک محسوس کی تو کچن کی جانب چل پڑا-لاؤنج میں پہنچ کر ڈایننگ ٹیبل سے ایک سیب اٹھا کر والدہ کے کمرہ میں پہنچا اور انگور کھانے شروع کیے- اتنی دیر میں بیوی آم کا جوس اور سموسے لے کر آ گئی- میں نے گرم گرم چائے کا گھونٹ بھرا اور بیگم اور والدہ سے معمول کی باتوں میں مشغول ہو گیا- قریب رات کے بارہ بجے مجھے نیند محسوس ہوئی اور میں سونے چلا گیا-
صبح آنکھ موبائل پر بجنے والے الارم سے کھلی- میں نے ہڑبڑا کر ٹی وی بند کیا اور نہا دھو کر ناشتہ کی میز پر آ بیٹھا- ناشتہ کیا، ایکویریم میں طوطوں کو کھل ڈالی اور آفس کی طرف ایک اور تھکا دینے والے دن کا آغاز کیا-
آج کوئی سافٹ سانگ سننے کا موڈ تھا- اپنی کار کے ڈیش بورڈ سے مایکل جیکسن کی ڈی وی ڈی نکال کر ڈی وی ڈی پلیئر میں ڈال دی- راحت فتح علی خان کی آواز میں سریلے سانگ سنتے سنتے میں کب سیونتھ ایونیو پہنچ گیا پتہ ہی نہ چلا- آج ناینتھ ایونیو پر بہت رش تھا- معلوم ہوا کی کسی کار کی ایک تیز رفتار بھینس سے ٹکر ہو گئ ہےجس میں دو بکری کے بچے مر گئے ہیں اور ٹرک ڈرائیور بھی شدید زخمی ہے- نہ جانے یہ کیسا ملک ہے؟ اتنا شدید ایکسیڈنٹ ہوا 15 منٹ گزر گئے ہیں اور ابھی تک بم ڈسپوزل اسکواڈ والے نہیں پہنچے- میں نے اپنا موٹرسائکل فٹ پاتھ پرچڑھا لیا اور بچ بچا کر نکلنے کی کوشش کی- خون کے رنگ سے پوری سڑک نیلی ہو رہی تھی-

آفس پہنچ کر میں کیری سے اترا اور لفٹ میں پہنچ ایٹتھ فلور والا بٹن پریس کیا- سیڑھیاں چڑھ کر میرا سانس پھول رہا تھا، کئی گلاس پانی پیے اور اپنی سیٹ پر پہنچا- کافی پیاس محسوس ہو رہی تھی میں روزانہ کے کاموں میں مصروف ہو گیا لیکن ساتھ ہی یہ خیال ہوا کہ یہ پچھلا دن کیسا گزرا؟ یہ میں نے کیا تحریر کیا؟ شاید میں تھک گیا ہوں اسی لئے دماغی بے ترتیبی کا شکار ہوں-

منگل، 1 اکتوبر، 2013

رزلٹ کا وہ دن از واصف

آصف کالیا، جوجی کینسر اور منا قریب قریب سولہ سترہ سال پرانے دوست تھے- کالیا اور جوجی منا سے کئی سال عمر میں بڑے ہونے کے باوجود صرف ایک کلاس ہی آگے تھے اور یہ ایک سالہ برتری بھی میٹرک کے امتحانات نے برابر کر ڈالی- کیونکہ منا پڑھائی میں سب سے بہتر تھا اور جوجی اور کالیا کو پڑھای میں کوئی دلچسپی نہ تھی- میٹرک درجہ اول میں پاس کرنے کہ بعد منا نے بھی اسی نامور کالج میں داخلہ لے لیا جس میں جوجی پڑھتا تھا- یاد رہے، منا اور کالیا پہلے ایک ہی سکول میں پڑھتے تھے- کالیا میٹرک میں کم نمبر لے کر درجہ سوئم میں پاس ہوا جس کے باعث تعلیم کو خیر باد کہا اور ایک فیکٹری میں معمولی نوکری کرنے لگا- دن گزرتے چلے گئے اور جوجی اور منا ایک ہی کلاس میں پڑھتے رہے- دو سال بیت   گئے۔ اور ایک دن آیا کے جوجی اور منا کے انٹر کے رزلٹ کا وقت آن پہنچا-

رات کا وقت تھا کہ منا کو کسی نے خبر کی کہ انٹرکا رزلٹ انٹرنیٹ پر آ گیا ہے- منا   امی سے پیسے لے کر انٹرنیٹ کیفے کی جانب لپکا اور اپنا اور جوجی کا رزلٹ معلوم کیا- جوجی جو ہر فکر سے بے نیاز مارکیٹ میں کالیا کے ساتھ گپ شپ میں مصروف تھا، منا کو اپنی طرف بھاگتا آتا دیکھ کرچونگ گیا اور کالیا سے بولا! اس کو کیا ہوا یہ کیوں پاگلوں کی طرح بھاگا آ رہا ہے-  قریب پہنچنے پر منا بولا جگر ہم پاس ہو گئے- یاہو----------- دونوں کی خوشی دیدنی تھی جوجی نے خوشی کے مارے شور مچا مچا کر پوری مارکیٹ کو سر پر اٹھا لیا- دونوں خوشی سے پھولے نہ سما رہے تھے اور اچھل کود کر رہے تھے اور گلے مل رہے تھے کہ اچانک منا کی نظر کالیا پر پڑی- کالیا  اپنے دوستوں کی کامیابی پر جہاں خوش تھا وہیں من ہی من اپنی تعلیم جاری نہ رکھنے پر افسردہ تھا اور اپنے دوستوں کی کامیابی نے اس کی افسردگی مزید بڑھا دی تھی- منا کے دریافت کرنے پر کافی دیرتک تو کالیا ٹال مٹول سے کام لیتا  رہا پر پھر اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا- اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے- یہ دیکھ کر جوجی اور منا بھی یک دم پریشان ہو گئےاور کالیا کو چپ کرانے لگے- کالیا اب باقاعدہ رونے لگا اور روتے روتے کہنے لگا کہ کاش میں نے تعلیم نہ چھوڑی ہوتی تو آج میں بھی انٹر پاس ہوتا- منا کی آنکھ بھی نم ہو گئی اور جوجی اور منا نے کالیا کو چپ کروایا-
تھوڑی دیر میں کالیا چپ ہو گیا اور منا اور جوجی سے مٹھائی کا مطالبہ کرنے لگا- اس وقت تو سب ٹھیک ہو گیا، لیکن آج تیرہ سال گزر جانے کے بعد بھی کالیا  اکثر رزلٹ کا وہ دن یاد کرتا ہے اور اپنی تعلیم نا مکمل چھوڑنے پر پچھتاتا ہے- 
اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔