بدھ، 27 نومبر، 2013

جبر پُر اختیار ہے ، اماں ہاں

جبر پُر اختیار ہے ، اماں ہاں
بیقراری قرار ہے ، اماں ہاں

ایزدِ یزداں ہے تیرا انداز
اہرمن دل فگار ہے ، اماں ہاں

میرے آغوش میں جو ہے اُس کا
دَم بہ دَم انتظار ہے ، اماں ہاں

ہے رقیب اُس کا دوسرا عاشق
وہی اِک اپنا یار ہے ، اماں ہاں

یار زردی ہے رنگ پر اپنے
سو خزاں تو بہار ہے ، اماں ہاں

لب و پستان و ناف اس کے نہ پوچھ
ایک آشوبِ کار ہے ، اماں ہاں

سنگ در کے ہوں یا ہوں دار کے لوگ
سب پہ شہوت سوار ہے ، اماں ہاں

اب تو انساں کے معجزے ہیں عام
اور انسان خوار ہے ، اماں ہاں

ایک ہی بار بار ہے ، اماں ہاں
اک عبث یہ شمار ہے ، اماں ہاں

ذرّہ ذرّہ ہے خود گریزانی
نظم ایک انتشار ہے ، اماں ہاں

ہو وہ یزداں کہ آدم و ابلیس
جو بھے خود شکار ہے ، اماں ہاں

وہ جو ہے جو   کہیں نہیں اس کا
سب کے سینوں پہ بار ہے ، اماں ہاں

اپنی بے روزگاریِ جاوید
اک عجب روزگار ہے ، اماں ہاں

شب خرابات میں تھا حشر بپا
کہ سخن ہرزہ کار ہے ، اماں ہاں

کیا کہوں فاصلے کے بارے میں
رہگزر ، رہگزر ہے ، اماں ہاں

بھُولے بھُولے سے ہیں وہ عارض و لب
یاد اب یادگار ہے ، اماں ہاں

منگل، 26 نومبر، 2013

وہ اہلِ حال جو خود رفتگی میں آئے تھے

وہ اہلِ حال جو خود رفتگی میں آئے تھے
بلا کی حالتِ شوریدگی میں آئے تھے

کہاں گئے کبھی ان کی خبر تو لے ظالم
وہ بے خبر جو تیری زندگی میں آئے تھے

گلی میں اپنی گِلہ کر ہمارے آنے کا
کہ ہم خوشی میں نہیں سرخوشی میں آئے تھے

کہاں چلے گئے اے فصلِ رنگ و بُو وہ لوگ
جو زرد زرد تھے اور سبزگی میں آئے تھے

نہیں ہے جن کے سبب اپنی جانبری ممکن
وہ زخم ہم کو گزشتہ صدی میں آئے تھے

تمہیں ہماری کمی کا خیال کیوں آتا
ہزار حیف ہم اپنی کمی میں آئے تھے

اتوار، 17 نومبر، 2013

یہ بالیقین حسین ہے، نبی کا نور عین ہے

لباس ہے پھٹا ہوا، غُبار میں اٹا ہوا
تمام جسمِ نازنیں، چھدا ہوا کٹا ہوا
یہ کون ذی وقار ہے، بلا کا شہ سوار ہے
کہ ہے ہزاروں قاتلوں کے سامنے ڈٹا ہوا
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

یہ کون حق پرست ہے، مئے رضائے مست ہے
کہ جس کے سامنے کوئی بلند ہے نہ پست ہے
اُدھر ہزار گھات ہے، مگر عجیب بات ہے
کہ ایک سے ہزار کا بھی حوصلہ شکست ہے
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

یہ جسکی ایک ضرب سے، کمالِ فنّ ِ حرب سے
کئی شقی گرئے ہوئے تڑپ رہے ہیں کرب سے
غضب ہے تیغِ دوسرا کہ ایک ایک وار پر
اُٹھی صدائے الاماں زبانِ شرق وغرب سے
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

عبا بھی تار تار ہے، تو جسم بھی فگار ہے
زمین بھی تپی ہوئی  فلک بھی شعلہ بار ہے
مگر یہ مردِ تیغ زن، یہ صف شکن فلک فگن
کمالِ صبر و تن دہی سے محوِ کارزار ہے
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

دلاوری میں فرد ہے، بڑا ہی شیر مرد ہے
کہ جس کے دبدبے سے رنگ دشمنوں کا زرد ہے
حبیبِ مُصطفیٰ ہے یہ، مجاہدِ خدا ہے یہ
جبھی تو اس کے سامنے، یہ فوج گرد گرد ہے
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

اُدھر سپاہِ شام ہے، ہزار انتظام ہے
اُدھر ہیں دشمنانِ دیں، اِدھر فقط اِمام ہے
مگر عجیب شان ہے غضب کی آن بان ہے
کہ جس طرف اُٹھی ہے تیغ بس خدا کا نام ہے
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

پس مرگ میرے مزار پر جو دیا کسی نے جلا دیا

پس مرگ میرے مزار پر جو دیا کسی نے جلا دیا
اسے آہ دامنِ باد نے، سر شام ہی سے بجھا دیا

مجھے دفن کرنا تو جس گھڑی، تو یہ اس سے کہنا کہ ائے پری
وہ جو تیرا عاشق زار تھا، تہہ خاک اسے دبا دیا

دم غسل سے مرے پیشتر، اسے ہم دموں نے یہ سوچ کر
کہیں جائے اس کا نہ دل دہل، میری لاش پر سے ہٹا دیا

میری آنکھ جھپکی تھی اک پل، میرے دل نے چہا کہ اُٹھ کر چل
دل بے قرار نے اور میاں وہیں چٹکی کے کے جگا دیا

ذرا ان کی شوخی تو دیکھیے لئے زلف زخم شدہ ہاتھ میں
میرے پیچھے آئے دبے دبے مجھے سانپ کہہ کے ڈرا دیا

میں نے دل دیا، میں جاں دی، مگر آہ! تو نہ نہ قدر کی
کسی بات کو جو کہا کبھی، اسے چٹکیوں میں اُڑا دیا

بدھ، 13 نومبر، 2013

ضبط اپنا شعار تھا، نہ رہا

ضبط اپنا شعار تھا، نہ رہا
دل پہ کچھ اختیار تھا، نہ رہا

دلِ مرحوم کو خدا بخشے
ایک ہی غم گسار تھا، نہ رہا

موت کا انتظار باقی ہے
آپ کا انتظار تھا، نہ رہا

اب گریباں کہیں سے چاک نہیں
شغلِ فصلِ بہار تھا، نہ رہا

آ، کہ وقتِ سکونِ مرگ آیا
نالہ نا خوش گوار تھا، نہ رہا

ان کی بے مہریوں کو کیا معلوم
کوئی اُمّیدوار تھا، نہ رہا

آہ کا اعتبار بھی کب تک
آہ کا اعتبار تھا، نہ رہا

کچھ زمانے کو سازگار سہی
جو ہمیں سازگار تھا، نہ رہا

مہرباں، یہ مزارِ فانی ہے
آپ کا جاں نثار تھا، نہ رہا

گھر کو چھوڑا شاہ نے جنت بسانے کے لیے

گھر کو چھوڑا شاہ نے جنت بسانے کے لیے
کربلا میں آئے تھے دنیا سے جانے کے لیے

ظہر کو زینب سے جب ملنے گئے گھر میں حُسین
کوئی ڈیوڑھی پر نہ تھا پردہ اٹھانے کے لیے

صبر یہ تھا مرگ پر باندھی جو اکبر نے کمر
شہ نے الٹی آستیں لاشہ اٹھانے کے لیے

کہتی تھی ماں خط مرے اکبر کو تھا پیغامِ مرگ
یہ جوانی آئی تھی گویا بلانے کے لیے

بڑھتی ہے منت غذا اصغر کی ہوتی ہے شروع
دودھ چھٹتا ہے چلے ہیں تیر کھانے کے لیے

عرشِ اعظم سے گزر جاتی ہے آہِ شاہِ دیں
تیر ایسا چاہیے ایسے نشانے کے لیے

تھا سرائے دہر میں اصغر کو رہنا ناگوار
مارتے تھے دست و پا دنیا سے جانے کے لیے

ڈھونڈتے ہیں طائرانِ گنبدِ قبرِ حسین
حضرتِ جبریل کے پر آشیانے کے لیے

کھیلتی تھیں خاک سے طفلی میں زینب بارہا
مشق کی تھی کربلا میں خاک اڑانے کے لیے

کربلا والوں کا ماتم دار تھا جنگل میں کون
رونے کو شبنم، ہوا تھی خاک اڑانے کے لیے

بخششِ سرور کی بازارِ عطا میں دھوم ہے
آستیں الٹے کھڑے ہیں گھر لٹانے کے لیے

حضرتِ سجاد راہِ شام سے واقف نہ تھے
ہاتھ پکڑے تھی رسن رستہ بتانے کے لیے

صبح سے تا ظہر تھی شہ کو یہ زہرا کی صدا
ہم نے پالا تھا تمہیں لاشے اٹھانے کے لیے

سن سے تیر آیا کہ آنکھیں ہو گئیں اصغر کی بند
خوب جھونکا تھا ہوا کا نیند آنے کے لیے

اے تعشق وائے حسرت کچھ نہیں زادِ سفر
ہاتھ خالی بیٹھے ہو دنیا سے جانے کے لیے​

پیر، 11 نومبر، 2013

تمہارا شکریہ از جون ایلیا

تمہارا شکریہ
ـــــــــــــــــــــــــ

جون ایلیاء کی آخری مکمل تحریر "تمھارا شکریہ" ان کی وفات کے بعد سسپینس ڈائجسٹ میں شایع ہوئی جس میں انہوں نے اپنی موت کی قبل از وقت علامتی اطلاع دی تھی جس میں جون ایلیاء کا ہمزاد (نشیان) ان کے قاتلوں کا انکشاف کر رہا ہے۔

نشیان، سحرالبیان
تم نے سنا جون ایلیاء مر گئے
کیا کہا، جون ایلیاء مر گئے؟
ہاں، ہاں جون ایلیاء مر گئے
لیکن تمہیں یقین کیوں نہیں آ رہا "نشیان، بلیغ البیان!" کیا میں اتنا بڑا اور احمقانہ جھوٹ بول سکتا ہوں؟ کیا میں تم سے ٹھٹھول کر سکتا ہوں؟ نہیں نشیان، نہیں نہ یہ مخول ہے نہ ٹھٹھول! یہ حقیقت ہے بین اور ٹھوس حقیقت جس سے نہ منہ موڑا جا سکتا ہے اور نہ انکار کیا جا سکتا ہے

اچھا! چلو میں تمہاری اس دل پذیر تقریر پر اعتبار کر لیتا ہوں میں مان لیتا ہوں کہ تم سچ بول رہے ہو ممکن ہے کہ تم سچ ہی بول رہے ہو "شاید" تم سچ ہی بول رہے ہو اچھا بھئی، تم یقیناً سچ بول رہے ہو، اب اگر ایسا ہی ہے "یعنی" یہ کہ تم سچ ہی بول رہے ہو تو سنو، ذرا غور سے سنو!

اب تم بول چکو اور میری بات سنو، آج صرف میں بولوں گا، صرف میں اس لیے کہ جون ایلیاء تو مر گئے ان کے سامنے تو میں کیا، کوئی بھی بول ہی نہیں سکتا تھا لہذا ان کی موجودگی میں چپ رہ رہ کر میرا سینہ جہنم بن چکا ہے میرے اندر ایک آگ لگی ہوئی ہے اور میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور میں آج اس آگ کو بجھا کر ہی دم لوں گا اور اس آگ میں تم کو جلا کر ہی دم لوں گا

اب تم انتہائی خاموشی! جاں گسل خاموشی کے ساتھ سنو

تم نے کہا کہ "جون ایلیاء مر گئے" یہی کہا ہے نا؟ دیکھو، اپنے بیان سے پھر مت جانا کہ آج دنیا کا یہی چلن ہے اور تم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم، ہی تو دنیا ہو یا "شاید" دنیا تم ہو بہ ہر صورت تم جو کوئی بھی ہو، بس ہو لہذا سنو

میں نشیان، سحر البیان پوری دنیا کو، پورے اردو گلوب کو آج یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ جون ایلیا نہیں مرے آج کے بعد کوئی یہ لفظ اپنی لپ لپاتی زبان سے ادا نہ کرے کہ جون ایلیاء مر گئے ورنہ گدی سے اس کی زبان کھینچ لی جائے گی

کیوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نشیان، کیوں ؟ آکر اس حقیقت کی حقیقت سے انکار کیوں؟ میرا خیال ہے تم جون ایلیاء کی محبت میں جذباتی ہو رہے ہو

خاموش! لب کشائی کی جرات مت کرو دریدہ دہہن انسان خاموش!

اگر حوصلہ ہے تو سنو ورنہ دفعہ ہو جاؤ میں یہ کبھی نہیں مان سکتا کہ جون ایلیاء مر گئے اس لیے کہ اگر میں یہ مان لوں تو پھر تمہیں جو کچھ ماننا پڑے گا تم اس کے لیے ہرگز ہرگز تیار نہیں ہو گے

کیا کہا ؟ تم سب کچھ ماننے کے لیے تیار ہو، اچھا تو پھر سنو

اگر میں یہ مان لوں کہ جون ایلیاء مر گئے تو پھر تمہیں یہ ماننا پڑے گا کہ آج ایک سقراط مر گیا، ہومر مر گیا، تاسیس ملیٹی! ہاں، وہ بھی گیا ارسطو، وہ بھی ہاں، ہاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہاں! ابن مسکویہ، فارابی، ابن رشد، بو علی سینا، طوسی، خیام سعدی، عرفی، رومی، نطشے، برٹرینڈرسل، برنارڈ شا،مل یہ سب مر گئے ایک پوری کی پوری بستی فنا کے گھاٹ اتر گئ

پڑ گیئں نا شکنیں پیشانی پر؟ تو کیا میں ڈر جاؤں گا!

نہیں مربی نہیں، میں بہت ڈر لیا، اب مجھے کسی کا ڈر نہیں ہے جب جون ایلیاء مر گئے تو اب مجھے موت کا کیا ڈر سنو، اب تو جہنم ہی سنو

جون ایلیاء مرے نہیں ہیں میں بار بار یہی کہتا رہوں گا کہ جون ایلیاء نہیں مرے ہاں میں یہ مان لوں گا کہ جون ایلیاء ہار گئے

مربی، اب پھر تم ادبی جملہ بولو گے کہ جون ایلیاء موت سے ہار گئے لیکن ایسا بالکل نہیں ہے مربی!

پیارے نشیان، ذرا دم لے لو، تمہارا سانس پھول چکا ہے ایک ذرا دم لے لو یہ لو! یہ دو گھونٹ پانی پی لو

میں پانی پی کر بھی آج تمہارا شکریہ ادا نہیں کروں گا اور تمہارا یہ پانی! ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ چند گھونٹ میرے لیے، میرے اندر کے جہنم کے لیے قطعاً بے کار اور ناکافی ہیں

سنو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور صرف سنو! تم نے صرف ایک ہی فن سیکھا ہے اور وہ ہے خوشآمد، میری خوشآمد مت کرو، مجھے پانی مت پلاؤ بس اگر ہو سکے تو صرف سنو!

جون ایلیاء زندگی سے نہیں ہارے بلکہ وہ تمہاری دنیا سے ہارے ہیں خوشامد سے ہارے ہیں فریب سے ہارے ہیں دغا بازی سے ہارے ہیں نمک حرامی سے ہارے ہیں، احسان فراموشی سے ہارے ہیں وہ تو تم سے ہارے ہیں مربی! تم سے

بس چند جملے اور سن لو مربی! اور ذرا کلیجے کو تھام لو کہ میں اب ان لوگوں کے نام لینے والا ہوں جن سے جون ایلیاء ہار گئے ہیں

جون ایلیا! تنہائی اور بے وفائی سے ہارے ہیں
جون ایلیا! علمی بونوں سے ہارے ہیں
جون ایلیا! اپنے خون سے ہارے ہیں
جون ایلیا! اپنی ثقافت سے ہارے ہیں
جون ایلیا! اپنی روایت سے ہارے ہیں

یہ ہیں جون ایلیا کے قاتل

مربی، اب اگر تم ان ناموں سے واقف نہیں ہو تو یہ تمہاری کم علمی اور سہل پسندی ہے اک ذرا سی کوشش کرو تو تم ان چہروں سے بھی آشنا ہو جاؤ گے

جاؤ مربی، جاؤ اپنے اس جہنم میں دفعان ہو جاؤ جو تم نے خود تیار کیا ہے ہو جاؤ مگن دنیا میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن یاد رکھو، جون ایلیاء کے یادگاری جلسوں میں کہا جانے والا یہ لفظ بے معنی ہے کہ ایک خلا پیدا ہو گیا ہے جو تا دیر پر نہیں ہو گا کوئی خلا پیدا نہیں ہوا یہ مان لو، نہیں مانتے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا کہا نہیں مانتے ؟ دیکھو، سوچ لو اگر نہیں مانو گے تو پھر تمہیں میرے اس جملے سے مکمل اتفاق کرنا پڑے گا اور یاد رکھو، پھر یہ جملہ تمہارا مقدر ہو جائے گا وہ مقدر جس کو تم بدل نہیں سکو گے

اور وہ جملہ یہ ہے کہ آج ادب، تاریخ، فلسفے، منطق اور ذہہن و زبان و ثقافت کا ایک مکمل دور ختم ہو گیا ہے، خلا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا کہا خلا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہاں یاد آیا، مربی! تم نے خلا کی بات کی تھی بھائی، تم جس خلا کی بات کر رہے ہو، وہ خلا تو جون ایلیاء کی زندگی میں ہی پر ہو گیا تھا

نشیان! پیارے، راج دلارے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ کیسے ممکن ہے، یہ خلا کس نے پر کیا؟ کیسے ہوا، بھلا کیسے؟ یہ ان ہون، یہ ناممکن ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ناممکن ہے

نہیں مربی! نہیں، تمہاری دنیا میں کچھ بھی ناممکن نہیں ہے لیکن تم نہیں مانو گے تم کیسے مان سکتے ہو بھلا کہیں اندرائن کے پیڑ میں بھی انگور کے خوشے لگے ہیں اچھا! تم نہیں مانتے، چلو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں مان لیتا ہوں تو پھر سنو کہ یہ خلا تمہارے بونوں نے جون ایلیاء کی زندگی ہی میں پر کر دیا تھا

پھر وہی نہیں

ہاں نشیان! نہیں، نہیں، نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 

اچھا مربی! تو پھر آج ہم اور تم اس بات کو آکری فیصلہ قرار دیتے ہیں کہ یہ خلا کبھی، کبھی، کبھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پر نہیں ہو گا کیا تم اس بات سے اتفاق کرتے ہو مربی! اگر ہاں تو پھر تمھارا شکریہ مربی، ڈھیروں شکریہ!

(ماہنامہ سسپنس ڈائجسٹ دسمبر 2002ء)

متاعِ جاں

یوں مجھے کب تلک سہو گے تم 
کب تلک مبتلا رہو گے تم 

درد مندی کی مت سزا پاؤ
اب تو تم مجھ سے تنگ آجاؤ

میں کوئی مرکزِ حیات نہیں
وجہ تخلیقِ کائنات نہیں 

میرا ہر چارہ گر نڈھال ہوا
یعنی ، میں کیا ہوا، وبال ہوا

جون غم کے ہجوم سے نکلے 
اور جنازا بھی دھوم سے نکلے 

اور جنازے میں ہو یہ شورِ حزیں
آج وہ مر گیا ، جو تھا ہی نہیں

منگل، 5 نومبر، 2013

دُور دُور مجھ سے وہ اس طرح خراماں ہے

دُور  دُور مجھ سے وہ اس طرح خراماں ہے
ہر قدم ہے نقشِ دل،  ہر نگہ رگِ جاں ہے

بن گئی ہے مستی میں دل کی بات ہنگامہ
قطرہ تھی جو ساغر میں لب تک آ کے طوفاں ہے

ہم تو پائے جاناں پر کر بھی آئے اِک سجدہ
سوچتی رہی دنیا کفر ہے کہ ایماں ہے

میرے شکوۂ  غم سے عالمِ ندامت میں
اُس لبِ تبسّم پر شمع سی فروزاں ہے

یہ نیازِ غم خواری، یہ شکستِ دل داری
بس نوازشِ جاناں، دل بہت پریشاں ہے

منتظر ہیں پھر میرے حادثے زمانے کے
پھر مرا جنوں تیری بزم میں غزل خواں ہے

فکر کیا انہیں جب تو ساتھ ہے اسیروں کے
اے غم اسیری تُو خود شکستِ زنداں ہے

اپنی اپنی ہمت ہے، اپنا اپنا دل مجروحؔ
زندگی بھی ارزاں ہے، موت بھی فراواں ہے

اتوار، 3 نومبر، 2013

كوئی بھی لمحہ كبھی لوٹ كر نہیں آیا

كوئی بھی لمحہ كبھی لوٹ كر نہیں آیا
وہ شخص ایسا گیا پھر نظر نہیں آیا

وفا كے دشت میں رستہ نہیں ملا كوئی
سوائے گرد سفر ہم سفر نہیں آیا

پَلٹ كے آنے لگے شام كے پرندے بھی
ہمارا صُبح كا بُھولا مگر نہیں آیا

كِسی چراغ نے پُوچھی نہیں خبر میری
كوئی بھی پُھول مِرے نام پر نہیں آیا

چلو كہ كوچۂ قاتل سے ہم ہی ہو آئیں
كہ نخلِ دار پہ كب سے ثمر نہیں آیا 

خُدا كے خوف سے دل جو لرزتے رہتے ہیں
اُنھیں كبھی بھی زمانے سے ڈر نہیں آیا

كدھر كو جاتے ہیں رستے، یہ راز كیسے كُھلے
جہاں میں كوئی بھی بارِ دگر نہیں آیا

یہ كیسی بات كہی شام كے ستارے نے
كہ چَین دل كو مِرے رات بھر نہیں آیا

ہمیں یقین ہے امجد نہیں وہ وعدہ خلاف
پہ عُمر كیسے كٹے گی، اگر نہیں آیا

یہ بھی نہیں کہ دستِ دعا تک نہیں گیا

یہ بھی نہیں کہ دستِ دعا تک نہیں گیا
میرا سوال خلقِ خدا تک نہیں گیا

پھر یوں ہوا کہ ہاتھ سے کشکول گر پڑا
خیرات لے کے مجھ سے چلا تک نہیں گیا

مصلوب ہو رہا تھا مگر ہنس رہا تھا میں
آنکھوں میں اشک لے کے خدا تک نہیں گیا

جو برف گر رہی تھی مرے سر کے آس پاس
کیا لکھ رہی تھی، مجھ سے پڑھا تک نہیں گیا

فیصل مکالمہ تھا ہواؤں کا پھول سے
وہ شور تھا کہ مجھ سے سنا تک نہیں گیا
اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔