اتوار، 29 دسمبر، 2013

اکھاں دی رکھوالی رکھ از چوہدری محمد علی مضطرؔ

اکھاں دی رکھوالی رکھ
عینک بھانویں کالی رکھ

جِیویں رات ہنیری اے
دل دا دِیوا بالی رکھ

اُتوں راون نچن دے
وِچوں رام دِوالی رکھ

غصہ، گِلہ، کام کرودھ
اینے سپ نہ پالی رکھ

اِکو یار نال یاری لا
دُشمن پینتی چالی رکھ

چناں دل دِیاں گلاں نُوں
گلِیں باتِیں ٹالی رکھ

مضطرؔ! منزل آ پُہجی
جوڑی کھول پنجالی رکھ

جمعہ، 27 دسمبر، 2013

اقتباسات از جون ایلیا

ہمارے ہاں معیار اور مثالیے بہت ہی رکیک اور پست ہیں۔ ہم کسی عالم، ادیب، مفکر، مصنف، قانون داں، شاعر، افسانہ نگار اور سائنس داں کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ ہم نقالوں، لطیفہ گویوں، اداکاروں، مسخروں اور بےہنگام نچنیوں اور گویوں کو اہمیت دیتے ہیں۔ سو ہمیں اپنے انجام اور مقسوم کو سمجھنے میں کوئی الجھن نہیں ہونا چاہیے۔

سسپنس ڈائجسٹ مئی 1996

اقتباسات از جون ایلیا

سن لیا جائے اور سمجھ لیا جائے کہ تاریخ کے خلاف کبھی جنگ نہیں کی جا سکتی اور اگر جنگ کی جائے گی تو شرم ناک ترین شکست کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ تم نے تاریخ کے خلاف جنگ کی اور اپنے اندر اور اپنے باہر شکست کھا گئے۔ جو مستقبل کی طرف قدم نہیں اٹھائے گا وہ ماضی کی طرف بری طرح دھکیل دیا جائے گا۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ علم تھا، دانش تھی۔ حکمت اور عمل کا ایک طویل سلسلہ تھا۔ اس لیے ان کی دھاندلی جیت گئی۔ تمہارے ساتھ ایسا کوئی سلسلہ نہیں تھا، اس لیے تمہاری غلط کاری اور غلط کوشی کو تو سزا یاب ہونا ہی تھا۔ تم بتاؤ، جواب دو کہ ایسا کیوں نہ ہوتا؟ آخر تم نے تاریخ سے ایسا کون سا معاہدہ کیا ہے کہ تم وقت سے ہٹ کر چلو اور وقت تمہیں راستہ دے دے۔ عراق کی شکست جمہوریت کے مقابلے میں آمریت کی شکست ہے۔ علم کے مقابلے میں جہالت کی شکست ہے۔

کیا ہنر کی نقالی ہنر سے جیت سکتی ہے؟ کیا خریدی ہوئی مہارت حقیقی مہارت کا سامنا کر سکتی ہے؟ حیرت ہے کہ ہم یہ بات کیوں نہیں سوچتے اور یہ نقطہ کیوں نہیں سمجھتے؟ ہمیں اس حقیقت کا احساس کیوں نہیں ہوتا کہ ہم ایک ہزار برس سے تاریخ کے دسترخوان پر حرام خوری کے سوا اور کچھ نہیں کر رہے۔

اپریل 1991

جمعرات، 26 دسمبر، 2013

اساں پیڑاں پیڑ کے پیتیاں اساں رنھ کے کھادی اگ

اساں پیڑاں پیڑ کے پیتیاں اساں رنھ کے کھادی اگ
ساڈا ساڑ سمے دیاں سولیاں ساڈے سر سوچاں دی پگ

ساڈا در سورج دا کعبہ ساڈی دھرتی امبروں اگے
سانوں ھونی دیندی لوریاں ساڈے نال نہ چناں لگ

اسیں برفاں چلہے بالدے اسیں بھانبڑ تلدے روز
ساڈا سورج چھاویں بیٹھدا اسیں انجدے لائی لگ

ساڈے قبراں کیرنے پاندیاں ساڈے بوھے نت مکان
اسیں سدھراں مار کے نپ دے سانوں عاشق کہندا جگ

اسیں اج نہیں کل تے پاوندے ساڈی کل دا ناں اے اج
اسیں آپ ٹھگاں نوں ٹھگدے ساڈے ٹھگ چراندے وگ

اسیں جتیاں بازیاں ھار دے اسیں موت نوں دیندے دان
اسیں انجم جگ توں وکھرے ساڈے لہو دا رنگ الگ

بدھ، 25 دسمبر، 2013

موجِ صبا کی پوچھ نہ سفاک دستیاں​

موج صبا کی پوچھ نہ سفاک دستیاں​
ڈوبی ہوئی ہیں خون میں پھولوں کی بستیاں​
مستی ہو یا خمار ہو، کر مے پرستیاں​
بے سود رفعتیں ہیں نہ بیکار پستیاں​
اے دوست کچھ تو سوچ کہ دنیا بدل گئی​
اب اس قدر نہ ہوش نہ اس درجہ مستیاں​
شاید مرے سوا کوئی اس کو سمجھ سکے​
کس طرح اِک نظر سے بدلتی ہیں ہستیاں​
اے کاروان راحت و غم دل ہے وہ مقام​
دن رات جس دیار میں لٹتی ہیں بستیاں​
غم، کشتگانِ عشق سے اتنا نہ کر گریز​
کچھ کام آ رہیں گی یہ بے کار ہستیاں​
آواز پائے ناز کو بھی مدتیں ہوئیں​
سونی پڑی ہیں کب سے ترے غم کی بستیاں​
دونوں سے بے نیاز ہوں، کیا موت کیا حیات​
ہیں رشکِ صد نشاط مری غم پرستیاں​
اس جیبِ تار تار کو خالی نہ جاننا​
بستی ہیں بیخودوں کے گریباں میں بستیاں​
سنتے ہیں حسن درد کی تصویر ہو چلا​
کچھ لا چلی ہیں رنگ مری غم پرستیاں​
کب ہم خیالِ عشق ہوا حسنِ بدگماں​
گو خود پرستیاں تھیں مری حق پرستیاں​
اب یادِ رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی​
یاروں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاں​
اُس کی نگاہِ ناز کی کیا بات ہے فراق​
دامن میں ہوش ہے تو گریباں میں مستیاں​

سر میں سودا بھی نہیں ، دل میں تمنا بھی نہیں

لیکن اس ترکِ محبت کا بھروسا بھی نہیں

یہ بھی سچ ہے کہ محبت پہ نہیں میں مجبور
یہ بھی سچ ہے کہ ترا حسن کچھ ایسا بھی نہیں

مہربانی کو محبت نہیں کہتے اے دوست
آہ اب مجھ سے تری رنجش بے جا بھی نہیں

مدتیں گزریں تری یاد بھی آئی نہ ہمیں
اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں

ہائے وہ رازِ محبت جو چھپائے نہ بنے
ہائے وہ داغِ محبت جو ابھرتا بھی نہیں

آہ یہ مجمع احباب یہ بزمِ خاموشی
آج محفل میں فراقِ سخن آراء بھی نہیں

جمعرات، 19 دسمبر، 2013

موت کی رسم نہ تھی، ان کی ادا سے پہلے

موت کی رسم نہ تھی، ان کی ادا سے پہلے
زندگی درد بنائی تھی، دوا سے پہلے

کاٹ ہی دیں گے قیامت کا دن اک اور سہی
دن گزارے ہیں محبّت میں قضا سے پہلے

دو گھڑی کے لئے میزان عدالت ٹھہرے
کچھ مجھے حشر میں کہنا ہے خدا سے پہلے

تم جوانی کی کشاکش میں کہاں بھول اٹھے
وہ جو معصوم شرارت تھی ادا سے پہلے

دار فانی میں یہ کیا ڈھونڈھ رہی ہے فانی
زندگی بھی کہیں ملتی ہے فنا سے پہلے

اتوار، 15 دسمبر، 2013

اے نیازؔ ! چپکے سے نوٹ جب اسے ایک سو کا تھما دیا

فیض کی روح سے معذرت کے ساتھ

اے نیازؔ ! چپکے سے نوٹ جب اسے ایک سو کا تھما دیا
جسے لوگ کہتے تھے سخت خُو، اُسے موم ہم نے بنا دیا

جو بھی رکن اپنا تھا ہمنوا، اسے کیسا ہم نے صلہ دیا
نہ وزیر کی رہی سیٹ جی، وہ مشیر ہم نے بنا دیا

جو گرانی پھولی، پھلی، بڑھی، اسے ایسے ہم نے شکست دی
کہ وہ مک مکا کا جو ریٹ تھا، وہ کچھ اور ہم نے بڑھا دیا

کہاں مجھ سا پینڈو گنوار اور، کہاں ایک صوبے کی ممبری
یہ تمام زر کا کمال ہے، جو مجھے بھی اس نے جتا دیا

یہ بھی مک مکا کا کمال ہے،  جو اسکول میں مرا لال ہے
جو تھا بارہ سالہ میرا پسر، اسے میں نے چھ کا لکھا دیا

کبھی عشق ہم نے نہیں کیا، نہیں عشق کا ہمیں تجربہ
تھا اگرچہ عشق یہ بارہواں، مگر اس کو پہلا بتا دیا

ہوئے مدحِ باس میں غرق جب تو ہر ایک حد سے گزر گئے
وہ جو شخص زیرو سے کم نہ تھا، اسے ہم نے ہیرو بنا دیا

ہفتہ، 14 دسمبر، 2013

راتاں، سفنے، ڈر تے میں

رَاتَاں، سُفنے،  ڈَر تَے میں
نَال کَھلی اے در تَے میں

اِک دُوجے دَے مُجرم آں
میرے کُترے پَر تَے میں

بَامَن بیٹھا ویکھ ریا واں
مسجد دے منبر تَے میں

لَڑدے پئے آں اَزلاں توں
اَنہونی دا وَر تَے میں

شام تھی اور برگ و گُل شَل تھے مگر صبا بھی تھی

شام تھی اور برگ و گُل شَل تھے مگر صبا بھی تھی
ایک عجیب سکوت تھا ایک عجب صدا بھی تھی

ایک ملال کا سا حال محو تھا اپنے حال میں
رقص و نوا تھے بے طرف محفلِ شب بپا بھی تھی

سامعۂ صدائے جاں بے سروکار تھا کہ تھا
ایک گماں کی داستاں برلبِ نیم وا بھی تھی

کیا مہ و سالِ ماجرا، ایک پلک تھی جو میاں
بات کی ابتدا بھی تھی بات کی انتہا بھی تھی

ایک سرودِ روشنی نیمۂ شب کا خواب تھا
ایک خموش تیرگی سانحہ آشنا بھی تھی

دل تیرا پیشۂ گلہ کام خراب کر گیا
ورنہ تو ایک رنج کی حالتِ بے گلہ بھی تھی

دل کے معاملے جو تھے ان میں سے ایک یہ بھی ہے
اک ہوس تھی دل میں جو دل سے گریز پا بھی تھی

بال و پرِ خیال کو اب نہیں سمت وسُو نصیب
پہلے تھی ایک عجب فضا اور جو پُر فضا بھی تھی

خشک ہے چشمۂ سارِ جاں زرد ہے سبزہ زارِدل
اب تو یہ سوچیے کہ یاں پہلے کبھی ہوا بھی تھی

یہ کیا کہ اک جہاں کو کرو وقفِ اضطراب

یہ کیا کہ اک جہاں کو کرو وقفِ اضطراب
یہ کیا کہ ایک دل کو شکیبا نہ کر سکو

ایسا نہ ہو یہ درد بنے دردِ لا دوا
ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کر سکو

شاید تمھیں بھی چین نہ آئے مرے بغیر
شاید یہ بات تم بھی گوارا نہ کر سکو

کیا جانے پھر ستم بھی میسّر ہو یا نہ ہو
کیا جانے یہ کرم بھی کرو یا نہ کر سکو

اللہ کرے جہاں کو مری یاد بھول جائے
اللہ کرے کہ تم کبھی ایسا نہ کر سکو

میرے سوا کسی کی نہ ہو تم کو جستجو
میرے سوا کسی کی تمنّا نہ کر سکو

منگل، 10 دسمبر، 2013

جندے نی

جِندے نی! تُوں کِیکن جَمّی
پیر پیر تے نِت بکھیڑے
جیون دی راہ لَمّی

جِندے نی! کِیہ لَچّھن تیرے
پَھنیئر نال یارانے وی نیں
جوگی وَل وی پھیرے

جِندے نی! کِیہ ساک سہیڑے
اِک بُکّل وِچ رانجھن ماہی
دُوجی دے وِچ کھیڑے

جِندے نی! کِیہ کارے کِیتے
آپے آس دے چولے پاڑے
آپے بِہہ کے سِیتے

جِندے نی! تک چیت وساکھاں
تُوں پِھردی ایں میل کُچیلی
دَس! تینُوں کِیہ آکھاں؟

جِندے نی! تیرا کارج کوڑا
سِر تے شَگناں والِیاں گھڑیاں
کَڈھ وچھایا ای پُھوہڑا

جِندے نی! تینُوں کیہڑا دَسّے
لُوں لُوں تیرا عیباں بَھریا
موت وٹیندی رَسّے

جِندے نی! تیرے ساہ نکارے
موئے مُونہہ نال آ بیٹھی ایں
جِیون دے دربارے

جِندے نی! کِیہ اَتّاں چائیاں
ہَس کھیڈن دی ویلھ نہ تینُوں
کردی پِھریں لڑائیاں

جِندے نی! کِیہ ویلے آئے
اِک دُوجے دی جان دے وَیری
اِکّو ماں دے جائے

جِندے نی! تیرے جِیون ما پے
آپے ہَتّھیں ڈولی چاڑھن
آپے کَرَن سیاپے

جِندے نی! کِس ٹُونے کِیتے
دِل دریا تے نین سمندر
روون بیٹھے چُپ چپِیتے

جِندے نی! کِیہ کھیڈاں ہوئیاں
پیو پُتراں دے پیرِیں پے کے
مانواں دِھیاں روئیاں

جِندے نی! کِیہ کاج کمائے
جِنّے وی تُوں سنگ سہیڑے
رُوح دے میچ نہ آئے

جِندے نی! کِیہ ہونیاں ہوئیاں
عِشقے دے گھر رہ کے اَکّھیاں
نہ ہَسیاں نہ روئیاں

جِندے نی! تیرے ساہ کچاوے
روز دیہاڑے مرنا پیندا
فیر وی موت ڈراوے

پیر، 9 دسمبر، 2013

تمہارا فیصلہ جاناں مجھے بے حد پسند آیا

تمہارا فیصلہ جاناں مجھے بے حد پسند آیا
پسند آنا ہی تھا جاناں
ہمیں اپنے سے اتنی دور تک جانا ہی تھا جاناں

بجا ہے خانماں سوز آرزوؤں ، تیرہ امّیدوں،
سراسر خوں شدہ خوابوں ، نوازش گر سرابوں،
ہاں سرابوں کی قَسم یک سر بجا ہے
اب ہمارا جان و دل کے جاوداں ، دل جان رشتے کو
اور اس کی زخم خوردہ یاد تک تو بے نیازانہ
بھُلا دینا ہی اچھا ہے
وہ سرمایا ، وہ دل سے بے بہا تر جاں کا سرمایا
گنوا دینا ہی اچھا ہے
زیانِ جاودانی کے گلہ افروز داغوں کو
بجھا دینا ہی اچھا ہے
تمہارا فیصلہ جاناں! مجھے بےحد پسند آیا۔ ۔ ۔۔۔ ​

پیر، 2 دسمبر، 2013

زنداں کی ایک شام

شام کے پیچ و خم ستاروں سے
زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات
یوں صبا پاس سے گزرتی ہے
جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات
صحنِ زنداں کے بے وطن اشجار
سرنگوں ،محو ہیں بنانے میں
دامنِ آسماں پہ نقش و نگار

شانۂ بام پر دمکتا ہے!
مہرباں چاندنی کا دستِ جمیل
خاک میں گھل گئی ہے آبِ نجوم
نور میں گھل گیا ہے عرش کا نیل
سبز گوشوں میں نیلگوں سائے
لہلہاتے ہیں جس طرح دل میں
موجِ دردِ فراقِ یار آئے

دل سے پیہم خیال کہتا ہے
اتنی شیریں ہے زندگی اس پل
ظلم کا زہر گھولنے والے
کامراں ہو سکیں گے آج نہ کل
جلوہ گاہِ وصال کی شمعیں
وہ بجھا بھی چکے اگر تو کیا
چاند کو گل کریں تو ہم جانیں
اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔