جمعرات، 30 جنوری، 2014

ایک آزار ہوئی جاتی ہے شہرت ہم کو

ایک آزار ہوئی جاتی ہے شہرت ہم کو
خود سے ملنے کی بھی ملتی نہیں فرصت ہم کو
روشنی کا یہ مسافر ہے رہِ جاں کا نہیں

اپنے سائے سے بھی ہونے لگی وحشت ہم کو

آنکھ اب کس سے تحیر کا تماشا مانگے

اپنے ہونے پہ بھی ہوتی نہیں حیرت ہم کو

اب کے اُمید کے شعلے سے بھی آنکھیں نہ جلیں

جانے کس موڑ پہ لے آئی محبت ہم کو

کون سی رُت ہے زمانے ، ہمیں کیا معلوم

اپنے دامن میں لئے پھرتی ہے حسرت ہم کو

زخم یہ وصل کے مرہم سے بھی شاید نہ بھرے

ہجر میں ایسی ملی اب کے مسافت ہم کو

داغِ عصیاں تو کسی طور نہ چھپتے امجدؔ

ڈھانپ لیتی نہ اگر چادرِ رحمت ہم کو 

بدھ، 29 جنوری، 2014

اوں بال غریب دا دِل ہاں

میں بھانڑپُرانڑیں جنگل دا، کہیں رُل گئے دی منزل ہاں
جیندی آپس وچ نہ بنڑ آوے، اوں گھوٹ دی پھِکی کھِل ہاں
جیکوں شاکرؔ چِتھ تے سٹ ڈیندن، بیکار مُساگ دی چھِل ہاں
جیندے میلے وچ کھیسے خالی ہن، اوں بال غریب دا دِل ہاں

منگل، 28 جنوری، 2014

کیوں اے فلک جو ہم سے جوانی جُدا ہوئی

کیوں اے فلک جو ہم سے جوانی جُدا ہوئی
اِک خود بخود جو دل میں خوشی تھی وہ کیا ہوئی

گُستاخ بلبلوں سے بھی بڑھ کر صبا ہوئی
کچھ جھُک کر گوش گُل میں کہا اور ہوا ہوئی

مایوس دل نے ایک نہ مانی امید کی
کہہ سن کے یہ غریب بھی حق سے ادا ہوئی

دنیا کا فکر ، موت کا ڈر، آبرو کا دھیان
دو دن کی زندگی مرے حق میں بلا ہوئی

موتی تمہارے کان کے تھرّا رہے ہیں کیوں
فریاد کس غریب کی گوش آشنا ہوئی

برسا جو ابرِ رحمتِ خالق بروزِ حشر
سبزہ کی طرح پھر مِری نشو و نما ہوئی

بیماریوں سے چھٹ گئے اے شادؔ حشر تک
قربان اس علاج کے، اچھی دوا ہوئی

پیر، 27 جنوری، 2014

اے تازہ واردانِ بساطِ ہوائے دل

اے تازہ واردانِ بساطِ ہوائے دل
زنہار! اگر تمہیں ہوسِ نائے و نوش ہے

دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو
میری سنو، جو گوشِ نصیحت نیوش ہے

ساقی، بہ جلوہ، دشمنِ ایمان و آگہی
مُطرب، بہ نغمہ، رہزنِ تمکین و ہوش ہے

یا شب کو دیکھتے تھے کہ ہر گوشۂ بساط
دامانِ باغبان و کفِ گُل فروش ہے

لطفِ خرامِ ساقی و ذوقِ صدائے چنگ
یہ جنتِ نگاہ، وہ فردوسِ گوش ہے

یا صبح دم جو دیکھیے آ کر، تو بزم میں
نے وہ سُرور و سُور، نہ جوش و خروش ہے

داغِ فراقِ صحبتِ شب کی جلی ہوئی
اک شمع رہ گئی ہے، سو وہ بھی خموش ہے

آتے ہیں غیب سے یہ مضامین خیال میں
غالب! صریرِ خامہ، نواے سروش ہے

اتوار، 26 جنوری، 2014

جو کچھ دیکھا جو سوچا ہے وہی تحریر کر جائیں!

جو کچھ دیکھا جو سوچا ہے وہی تحریر کر جائیں!
جو کاغذ اپنے حصے کا ہے وہ کاغذ تو بھر جائیں!

نشے میں نیند کے تارے بھی اک دوجے پر گرتے ہیں
تھکن رستوں کی کہتی ہے چلو اب اپنے گھر جائیں

کچھ ایسی بے حسی کی دھند سی پھیلی ہے آنکھوں میں
ہماری صورتیں دیکھیں تو آئینے بھی ڈر جائیں

نہ ہمت ہے غنیمِ وقت سے آنکھیں ملانے کی
نہ دل میں حوصلہ اتنا کہ مٹی میں اتر جائیں

گُلِ امید کی صورت ترے باغوں میں رہتے ہیں
کوئی موسم ہمیں بھی دے کہ اپنی بات کر جائیں

دیارِ دشت میں ریگِ رواں جن کو بناتی ہے
بتا اے منزلِ ہستی کہ وہ رستے کدھر جائیں

تو کیا اے قاسمِ اشیاء یہی آنکھوں کی قسمت ہے
اگر خوابوں سے خالی ہوں تو پچھتاووں سے بھر جائیں

جو بخشش میں ملے امجد تو اس خوشبو سے بہتر ہے
کہ اس بے فیض گلشن سے بندھی مُٹھی گزر جائیں

وعدے گنے نئیں تیرے توں کُل جانے

وعدے گنے نئیں تیرے توں کُل جانے 
تینوں بھل دے بھل دے بھل جانے

جدوں عشق دا پنچھی اُڈار ہونا
بھید کھل دے کھل دے کھل جانے

سوچ سپ دا منہ جے کھول دتا
گوہر ڈھل دے ڈھل دے ڈھل جانے

جے ڈکی نہ ہوا کدورتاں دی
جھکڑ جھل دے جھل دے جھل جانے

جے ناں کجیا حسن ملوک چنا
راہی بھل دے بھل دے بھل جانے 

جمعرات، 23 جنوری، 2014

دہکتے دن میں عجب لطف اٹھایا کرتا تھا

دہکتے دن میں عجب لطف اٹھایا کرتا تھا
میں اپنے ہاتھ کا تتلی پہ سایہ کرتا تھا

اگر میں پوچھتا بادل کدھر کو جاتے ہیں
جواب میں کوئی آنسو بہایا کرتا تھا

یہ چاند ضعف ہے جس کی زباں نہیں کھلتی
کبھی یہ چاند کہانی سنایا کرتا تھا

میں اپنی ٹوٹتی آواز گانٹھنے کے لئے
کہیں سے لفظ کا پیوند لایا کرتا تھا

عجیب حسرت پرواز مجھ میں ہوتی تھی
میں کاپیوں میں پرندے بنایا کرتا تھا

تلاش رزق میں بھٹکے ہوئے پرندوں کو
میں جیب خرچ سے دانہ کھلایا کرتا تھا

ہمارے گھر کے قریب ایک جھیل ہوتی تھی
اور اس میں شام کو سورج نہایا کرتا تھا

یہ زندگی تو مجھے ترے پاس لے آئی
یہ راستہ تو کہیں اور جایا کرتا تھا

ہم رات بہت روئے، بہت آہ و فغاں کی

ہم رات بہت روئے، بہت آہ و فغاں کی
دل درد سے بوجھل ہو تو پھر نیند کہاں کی

سر زانو پہ رکھے ہوئے کیا سوچ رہی ہو؟
کچھ بات سمجھتی ہو محبت زدگاں کی؟

تم میری طرف دیکھ کے چپ ہو سی گئی تھیں
وہ ساعتِ خوش وقت نشاطِ گزراں کی

اک دن یہ سمجھتے تھے کہ پایانِ تمنا
اک رات ہے مہتاب کے ایامِ جواں کی

اب اور ہی اوقات ہے اے جانِ تمنا!
ہم نالہ کناں، بے گنَہاں، غم زدگاں کی

اس گھر کی کھلی چھت پہ چمکتے ہوئے تارو!
کہتے ہو کبھی جا کے وہاں بات یہاں کی ؟

برگشتہ ہوا ہم سے، یہ مہتاب تو پیارو!
بس بات سنی، راہ چلا، کاہکشاں کی

اللہ کرے میرؔ کا جنت میں مکاں ہو
مرحوم نے ہر بات ہماری ہی بیاں کی

ہوتا ہے یہی عشق میں انجام سبھی کا
باتیں یہی دیکھی ہیں محبت زدگاں کی

پڑھتے ہیں شب و روز اسی شخص کی غزلیں
غزلیں یہ حکایات ہیں ہم دل زدگاں کی

تم چرخِ چہارم کے ستارے ہوئے لوگو!
تاراج کرو زندگیاں اہلِ جہاں کی

اچھا ہمیں بنتے ہوئے، مٹتے ہوئے دیکھو
ہم موجِ گریزاں ہی سہی، آبِ رواں کی

انشاؔ سے ملو، اس سے نہ روکیں گے وہ، لیکن
اُس سے یہ ملاقات نکالی ہے کہاں کی

مشہور ہے ہر بزم میں اس شخص کا سودا
باتیں ہیں بہت شہر میں بدنام، میاں کی

اے دوستو! اے دوستو! اے درد نصیبو!
گلیوں میں، چلو سیر کریں، شہرِ بتاں کی

ہم جائیں کسی سَمت، کسی چوک میں ٹھہریں
کہیو نہ کوئی بات کسی سود و زیاں کی

انشاؔ کی غزل سن لو، پہ رنجور نہ ہونا
دیوانا ہے، دیوانے نے اک بات بیاں کی

بشکریہ فاتحؔ الدین بشیر

جنون دل نہ صرف اتنا کہ اک گل پیرہن تک ہے از مجروحؔ سلطانپوری

جنون دل نہ صرف اتنا کہ اک گل پیرہن تک ہے
قد و گیسو سے اپنا سلسلہ دارو رسن تک ہے

مگر اے ہم قفس،  کہتی ہے شوریدہ سری اپنی
یہ رسمِ قید و زنداں،  ایک دیوارِ کہن تک ہے

کہاں بچ کر چلی اے فصل گل، مجھ آبلہ پا سے
مرے قدموں کی گلکاری بیاباں سے چمن  تک ہے

میں کیا کیا جرعۂ خوں پی گیا پیمانۂ دل میں
بلا نوشی مری کیا اک مئے ساغر شکن تک ہے

نہ آخر کہہ سکا اُس سے مرا حال دل سوزاں
مہ تاباں کہ جو اس کا شریک انجمن  تک ہے

نوا ہے جاوداں مجروحؔ جس میں روح ساعت ہو
کہا کس نے مرا نغمہ زمانے کے چلن تک ہے

بدھ، 22 جنوری، 2014

وہ ہمسفر تھا مگر اس سے ہمنوائی نہ تھی

وہ ہمسفر تھا مگر اس سے ہمنوائی نہ تھی
کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھی

نہ اپنا رنج نہ اپنا دکھ نہ اوروں کا ملال
شبِ فراق کبھی ہم نے یوں گنوائی نہ تھی

محبتوں کا سفر کچھ اس طرح بھی گزرا تھا
شکستہ دل تھے مسافر شکستہ پائی نہ تھی

عداوتیں تھیں ، تغافل تھا، رنجشیں تھیں بہت
بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا ، بے وفائی نہ تھی

بچھڑتے وقت ان آنکھوں میں تھی ہماری غزل
غزل بھی وہ جو کسی کو ابھی سنائی نہ تھی

کبھی یہ حال کہ دونوں میں یک دلی تھی بہت
کبھی یہ مرحلہ جیسے کہ آشنائی نہ تھی

عجیب ہوتی ہے راہِ سخن بھی دیکھ نصیر
وہاں بھی آ گئے آخر جہاں رسائی نہ تھی

پیر، 20 جنوری، 2014

کچھ کہنے کا وقت نہیں یہ، کچھ نہ کہو، خاموش رہو

کچھ کہنے کا وقت نہیں یہ، کچھ نہ کہو، خاموش رہو
اے لوگو خاموش رہو, ہاں اے لوگو، خاموش رہو

سچ اچھا، پر اس کے جلو میں، زہر کا ہے اک پیالا بھی
پاگل ہو؟ کیوں ناحق کو سقراط بنو، خاموش رہو

حق اچھا، پر اس کے لئے کوئی اور مرے تو اور اچھا
تم بھی کوئی منصور ہو جو سُولی پہ چڑھو؟ خاموش رہو

اُن کا یہ کہنا سورج ہی دھرتی کے پھیرے کرتا ہے
سر آنکھوں پر، سورج ہی کو گھومنے دو، خاموش رہو

مجلس میں کچھ حبس ہے اور زنجیر کا آہن چبھتا ہے
پھر سوچو، ہاں پھر سوچو، ہاں پھر سوچو، خاموش رہو

گرم آنسو اور ٹھنڈی آہیں ، من میں کیا کیا موسم ہیں
اس بگھیا کے بھید نہ کھولو، سیر کرو، خاموش رہو

آنکھیں موند کنارے بیٹھو، من کے رکھو بند کواڑ
انشا جی لو دھاگہ لو اور لب سی لو، خاموش رہو

اتوار، 19 جنوری، 2014

غبار جاں نکلنا جانتا ہے

غبار جاں نکلنا جانتا ہے
دھواں روزن کا رستا جانتا ہے

تم اس کی رہنمائی کیا کرو گے
کدھر جانا ہے دریا جانتا ہے

بہت حیراں ہوا میں اس سے مل کر
مجھے اک شخص کتنا جانتا ہے

نہیں چلتے زمانے کی روش پر
ہمیں بھی اک زمانہ جانتا ہے

بڑے چرچے ہیں اُس کی آگہی کے
مگر انساں ابھی کیا جانتا ہے

کیے ہیں جس نے دل تخلیق انورؔ
دلوں کا حال سارا جانتا ہے

پیر، 13 جنوری، 2014

رات

رات

مری دہلیز پر بیٹھی ہوئی زانوں پہ سر رکھے 
یہ شب افسوس کرنے آئی ہے کہ میرے گھرپہ
آج ہی جو مرگیا ہے دن 
وہ دن ہمزاد تھا اس کا !
وہ آئی ہے کہ میرے گھر میں اس کو دفن کرکے 
ایک دیا دہلیز پر رکھ کر 
نشانی چھوڑ دے کہ محو ہے یہ قبر
اس میں دوسرا آکر نہیں لیٹے
مَیں شب کو کیسے بتلاؤں
بہت دن مرے آنگن میں یوں آدھے ادھورے سے 
کفن اوڑھے پڑے ہیں کتنے سالوں سے 
جنہیں میں آج تک دفنا نہیں پایا !

جمعرات، 9 جنوری، 2014

دکھاں نال یارانہ لا کے غم دی چکی چوندے رے آں

دکھاں نال یارانہ لا کے غم دی چکی چوندے رے آں 
ہر بندے نوں ہاسے دیتے اندروں پاویں روندے رے آں

اوس بنگلے دے متھے اوتے کیتے وی ساڈا ناں نئیں آیا
ساری عمراں جس بنگلے دا گارا اٹاں ڈھوندے رے آں

ویلے دیاں عفریتاں نےوی اوتھے آن جمایاڈیرا
جیڑی تھاں وی ڈردے ڈردےاپناآپ لکوندے رے آں

اتوار، 5 جنوری، 2014

وہ اکثر باتوں باتوں میں اغیّار سے پُوچھا کرتے ہیں

وہ اکثر باتوں باتوں میں اغیار سے پوچھا کرتے ہیں 
یہ سر بہ گریباں دیوانے کس شے کا تقاضا کرتے ہیں 

اک دن تھا، کہ ساحل پر بیٹھے طوفاں پہ تبسّم کرتے تھے 
اب مایوسی کے عالم میں ساحل کا تماشا کرتے ہیں

خطرہ ہے وفا کے لٹنے کا، مجبورئِ دل بھی لازم ہے 
جینے کی تمنّا کرتے ہیں، مرنے کا تقاضا کرتے ہیں 

معصوم ستمگر کی باتیں، مظلوم ادا کے افسانے 
یوں رات بسر ہوجاتی ہے، یوں دل کا مداوا کرتے ہیں

جب نادانی کا عالم تھا حاصل کی تمنّا کرتے تھے 
اب دل میں آگ لگاتے ہیں شعلوں کا تماشا کرتے ہیں

اپنے میں رہے تو رسوائی، اپنے سے گئے تو سودائی 
ہم مدّت سے دیوانگئِ دنیا کا تماشا کرتے ہیں

ہفتہ، 4 جنوری، 2014

راضی ناواں ہو سکدا اے

راضی ناواں ہو سکدا اے
جے او ساواں ہو سکدا اے

دھپّاں دے وچ میرے نال
ہاں! پرچھاواں ہوسکدا اے

میرے ورگے مک نئیں سکدے
ٹاواں ٹاواں ہوسکدا اے

اج میرے تے خُش لگدا اے
ہتھ تے لاواں، ہوسکدا اے
اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔