جمعرات، 27 فروری، 2014

وہ خط کے پرزے اُڑا رہا تھا

وہ خط کے پرزے اُڑا رہا تھا
ہواؤں کا رخ دِکھا رہا تھا

بتاؤں کیسے وہ بہتا دریا
جب آ رہا تھا تو جا رہا تھا

کہیں مرا ہی خیال ہو گا
جو آنکھ سے گرتا جا رہا تھا

کچھ اور بھی ہو گیا نمایاں
میں اپنا لکھا مٹا رہا تھا

وہ جسم جیسے چراغ کی لَو
مگر دھواں دِل پہ چھا رہا تھا

منڈیر سے جھک کے چاند کل بھی
پڑوسیوں کو جگا رہا تھا

اسی کا ایماں بدل گیا ہے
کبھی جو میرا خدا رہا تھا

وہ ایک دن ایک اجنبی کو
مری کہانی سنا رہا تھا

وہ عمر کم کر رہا تھا میری
میں سال اپنا بڑھا رہا تھا

خدا کی شاید رضا ہو اس میں
تمہارا جو فیصلہ رہا تھا​

بدھ، 26 فروری، 2014

مٹی گریز کرنے لگی ہے خیال کر از علی زریون

مٹی گریز کرنے لگی ہے خیال کر
اپنا وجود اپنے لیے تو بحال کر

تیرا طلوع تیرے سوا تو کہیں نہیں
اپنے میں ڈوب اپنے ہی اندر زوال کر

اوروں کے فلسفے میں ترا کچھ نہیں چھپا
اپنے جواب کے لیے خود سے سوال کر

پہلے وہ لا تھا مجھ سے الٰہی ہوا ہے وہ
لایا ہوں میں خدا کو خودی سے نکال کر

اس کارگاہ عشق میں سمتوں کا دکھ نہ پال
فکر جنوب اور نہ خوف شمال کر

خواہش سے جیتنا ہے تو مت اس سے جنگ کر
چکھ اس کا ذائقہ اسے چھو کر نڈھال کر

آیا ہے پریم سے تو میں حاضر ہوں صاحبہ
لے میں بچھا ہوا ہوں مجھے پائمال کر

پیر، 24 فروری، 2014

کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سےبڑی حسرت سے تکتی ہیں


کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سےبڑی حسرت سے تکتی ہیں
مہینوں اب ملاقاتیں نہیں ہوتیں
جو شامیں ان کی صحبت میں کٹا کرتی تھیں، اب اکثر
گزر جاتی ہیں کمپیوٹر کے پردوں پر
بڑی بے چین رہتی ہیں
انہیں اب نیند میں چلنے کی عادت ہو گئی ہے
بڑی حسرت سے تکتی ہیں
جو قدریں وہ سناتی تھیں۔۔۔ ۔
کہ جن کے سیل کبھی مرتے نہیں تھے
وہ قدریں اب نظر آتی نہیں گھر میں
جو رشتے وہ سناتی تھیں
وہ سارے ادھڑے ادھڑے ہیں
کوئی صفحہ پلٹتا ہوں تو اک سسکی نکلتی ہے
کئی لفظوں کے معنی گر پڑے ہیں
بنا پتوں کے سوکھے ٹنڈ لگتے ہیں وہ سب الفاظ
جن پر اب کوئی معنی نہیں اگتے
بہت سی اصطلاحیں ہیں۔۔۔ ۔
جو مٹی کے سکوروں کی طرح بکھری پڑی ہیں
گلاسوں نے انہیں متروک کر ڈالا
زباں پہ ذائقہ آتا تھا جو صفحے پلٹنے کا
اب انگلی کلک کرنے سے بس اک
جھپکی گزرتی ہے۔۔۔ ۔۔
بہت کچھ تہ بہ تہ کھلتا چلا جاتا ہے پردے پر
کتابوں سے جو ذاتی رابطہ تھا، کٹ گیا ہے
کبھی سینے پہ رکھ کے لیٹ جاتے تھے
کبھی گودی میں لیتے تھے
کبھی گھٹنوں کو اپنے رحل کی صورت بنا کر
نیم-سجدے میں پڑھا کرتے تھے، چھوتے تھے جبیں سے
خدا نے چاہا تو وہ سارا علم تو ملتا رہے گا بعد میں بھی
مگر وہ جو کتابوں میں ملا کرتے تھے سوکھے پھول
کتابیں مانگنے، گرنے، اٹھانے کے بہانے رشتے بنتے تھے
ان کا کیا ہو گا
وہ شاید اب نہیں ہوں گے​

ہفتہ، 22 فروری، 2014

اے جذبۂ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آ جائے

اے جذبۂ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آ جائے

منزل کے لیے دو گام چلوں اور سامنے منزل آ جائے

آتا ہے جو طوفاں آنے دے، کشتی کا خدا خود حافظ ہے

مشکل تو نہیں ان موجوں میں خود بہتا ہوا ساحل آ جائے

اے شمع، قسم پروانوں کی، اتنا تُو میری خاطر کرنا

اس جذبۂ دل کے بارے میں اک مشورہ تم سے لیتا ہوں

اس وقت مجھے کیا لازم ہے جب تم پہ میرا دل آ جائے

اے رہبرِ کامل چلنے کو تیار تو ہوں بس یاد رہے

اس وقت مجھے بھٹکا دینا جب سامنے منزل آ جائے

اس عشق میں جاں کو کھونا ہے، ماتم کرنا ہے، رونا ہے

میں جانتا ہوں جو ہونا ہے، پر کیا کروں جب دل آ جائے

ہاں یاد مجھے تم کر لینا، آواز مجھے تم دے لینا

اس راہِ محبت میں کوئی درپیش جو مشکل آ جائے

اے دل کی خلش چل یونہی سہی، چلتا تو ہوں ان کی محفل میں

اس وقت مجھے چونکا دینا جب رنگ پہ محفل آ جائے

منگل، 18 فروری، 2014

کرید

کرید

جی چاہے کہ
پتھر مار کے سورج ٹکڑے ٹکڑے کردوں
سارے فلک پر بکھرا دوں‌اس کانچ کے ٹکڑے
جی چاہے کہ
لمبی ایک کمند بنا کر
دور افق پر ہُک لگاؤں
کھینچ کے چادر چیر دوں ساری
جھانک کے دیکھوں پیچھے کیا ہے
شاید کوئی اور فلک ہو!

بدھ، 12 فروری، 2014

معنی کا عذاب

معنی کا عذاب

چوک سے چل کر، منڈی اور بازار سے ہوکر
لال گلی سے گزری ہے کاغذ کی کشتی
بارش کے لاوارث پانی پر بیٹھی بیچاری کشتی
شہر کی آوارہ گلیوں میں سہمی سہمی گھوم رہی ہے
پوچھ رہی ہے
ہر کشتی کا ساحل ہوتا ہے تو کیا میرا بھی کوئی ساحل ہوگا

بھولے بھالے اک بچے نے
بے معنی کو معنی دے کر
ردی کے کاغذ پر کیسا ظلم کیا ہے

منگل، 11 فروری، 2014

میرا خاموش رہ کر بھی انہیں سب کچھ سنا دینا

میرا خاموش رہ کر بھی انہیں سب کچھ سنا دینا
زباں سے کچھ نہ کہنا دیکھ کر آنسو بہا دینا

میں اس حالت سے پہنچا حشر والے خود پکار اٹھے
کوئی فریاد کرنے آ رہا ہے راستہ دینا

اجازت ہو تو کہ دوں قصۂ الفت سرِ محفل
مجھے کچھ تو فسانہ یاد ہے کچھ تم سنا دینا

میں مجرم ہوں مجھے اقرار ہے جرمِ  محبت کا
مگر پہلے خطا پر غور کر لو پھر سزا دینا

قمرؔ وہ سب سے چھپ کر آ رہے ہیں فاتحہ پڑھنے
کہوں کس سے کہ میری شمعِ تربت کو بجھا دینا

پیر، 10 فروری، 2014

مجھ کو شبِ وجود میں تابش خواب چاہیے

مجھ کو شبِ وجود میں تابش خواب چاہیے
شوقِ خیال تازہ ہے یعنی عذاب چاہیے

آج شکستِ ذات کی شام ہے مجھ کو آج شام
صرف شراب چاہیے ، صرف شراب چاہیے

کچھ بھی نہیں ہے ذہن میں کچھ بھی نہیں سو اب مجھے
کوئی سوال چاہیے کوئی جواب چاہیے

اس سے نبھے گا رشتۂ سود و زیاں بھی کیا بھلا
میں ہوں بلا کا بدحساب اس کو حساب چاہیے

امن و امانِ شہرِ دل خواب و خیال ہے ابھی
یعنی کہ شہر دل کا حال اور خراب چاہیے

جانِ گماں ہمیں تو تم صرف گمان میں رکھو
تشنہ لبی کو ہر نفس کوئی سراب چاہیے

کھل تو گیا ہے دل میں ایک مکتبِ حسرت و امید
جونؔ اب اس کے واسطے کوئی نصاب چاہیے

اتوار، 9 فروری، 2014

بھلا کیا پڑھ لیا ہے اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں

بھلا کیا پڑھ لیا ہے اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں
کہ اس کی بخششوں کے اتنے چرچے ہیں فقیروں میں

کوئی سورج سے سیکھے، عدل کیا ہے، حق رسی کیا ہے
کہ یکساں دھوپ بٹتی ہے، صغیروں میں کبیروں میں

ابھی غیروں کے دکھ پہ بھیگنا بھولی نہیں آنکھیں
ابھی کچھ روشنی باقی ہے لوگوں گے ضمیروں میں

نہ وہ ہوتا، نہ میں اِک شخص کو دل سے لگا رکھتا
میں دشمن کو بھی گنتا ہوں محبت کے سفیروں میں

سبیلیں جس نے اپنے خون کی ہر سو لگائی ہوں
میں صرف ایسے غنی کا نام لکھتا ہوں امیروں میں

بدن آزاد ہے، اندر میرے زنجیر بجتی ہے
کہ میں مختار ہو کر بھی گنا جاؤں اسیروں میں

ہفتہ، 8 فروری، 2014

ٹھہری ٹھہری ہوئی طبیعت میں روانی آئی​

ٹھہری ٹھہری ہوئی طبیعت میں روانی آئی
آج پھر یاد محبت کی کہانی آئی
آج پھر نیند کو آنکھوں سے بچھڑتے دیکھا
آج پھر یاد کوئی چوٹ پرانی آئی
مدّتوں بعد چلا اُن پہ ہمارا جادو
مدّتوں بعد ہمیں بات بنانی آئی
مدّتوں بعد پشیماں ہوا دریا ہم سے
مدّتوں بعد ہمیں پیاس چُھپانی آئی
مدّتوں بعد کھُلی وسعتِ صحرا ہم پر
مدّتوں بعد ہمیں خاک اُڑانی آئی
مدّتوں بعد میسر ہوا ماں کا آنچل
مدّتوں بعد ہمیں نیند سُہانی آئی
اتنی آسانی سے ملتی نہیں فن کی دولت
ڈھل گئی عمر تو غزلوں پہ جوانی آئی

انشا جی کیا بات بنے گی ہم لوگوں سے دور ہوئے


انشا جی کیا بات بنے گی ہم لوگوں سے دور ہوئے
ہم کس دل کا روگ ہوئے ، کس سینے کا ناسور ہوئے
بستی بستی آگ لگی تھی ، جلنے پر مجبور ہوئے
رندوں میں کچھ بات چلی تھی شیشے چکنا چور ہوئے
لیکن تم کیوں بیٹھے بیٹھے آہ بھری رنجور ہوئے
اب تو ایک زمانہ گزرا تم سے کوئی قصور ہوئے


اے لوگو کیوں بھولی باتیں یاد کرو ، کیا یاد دلاؤ
قافلے والے دور گئے ، بجھنے دو اگر بجھتا ہے الاؤ
ایک موج سے رک سکتا ہے طوفانی دریا کا بہاؤ
سمے سمے کا اک راگ ہے ، سمے سمے کا اپنا بھاؤ
آس کی اجڑی پھلواری میں یادوں کے غنچے نہ کھلاؤ
پچھلے پہر کے اندھیارے میں کافوری شمعیں نہ جلاؤ


انشا جی وہی صبح کی لالی ۔ انشا جی وہی شب کا سماں
تمہی خیال کی جگر مگر بھٹک رہے ہو جہاں تہاں
وہی چمن وہی گل بوٹے ہیں وہی بہاریں وہی خزاں
ایک قدم کی بات ہے یوں تو روپہلے خوابوں کا جہاں
لیکن دور افق دیکھو لہراتا گھنگھور دھواں
بادل بادل امڈ رہا ہے سہج سہج پیچاں پیچاں


منزل دور دکھے تو راہی رہ میں بیٹھ سستائے
ہم بھی تیس برس کے ماندے یونہی روپ نگر ہو آئے
روپ نگر کی راج کماری سپنوں میں آئے بہلائے
قدم قدم پہ مدماتی مسکان بھیرے ہاتھ نہ آئے
چندرما مہراج کی جیوتی تارے ہیں آپس میں چھپائے
ہم بھی گھوم رہے ہیں لے کر کاسہ انگ بھبھوت رمائے
جنگل جنگل گھوم رہے ہیں رمتے جوگی سیس نوائے


تم پریوں کے راج دلارے تم اونچے تاروں کے کوی
ہم لوگوں کے پاس یہی اجڑا انبر ، اجڑی دھرتی
تو تم اڑن کھٹولے لے کر پہنچو تاروں کی نگری
ہم لوگوں کی روح کمر تک دھرتی کی دلدل میں پھنسی
تم پھولوں کی سیجیں ڈھونڈو اور ندیا سنگیت بھری
ہم پت جھڑ کی اجڑی بیلیں زرد زرد الجھی الجھی


ہم وہ لوگ ہیں گنتے تھے تم کل تک جن کو پیاروں میں
حال ہمارا سنتے تھے تو لوٹتے تھے انگاروں میں
آج بھی کتنے ناگ چھپے ہیں دشمن کے بمباروں میں
آتے ہیں نیپام اگلتے وحشی سبزہ زاروں میں
آہ سی بھر کے رہ جاتے ہو بیٹھ کے دنیا داروں میں
حال ہمارا چھپتا ہے جب خبروں میں اخباروں میں


اوروں کی تو باتیں چھوڑو ، اور تو جانے کیا کیا تھے
رستم سے کچھ اور دلاور بھیم سے بڑھ کر جودھا تھے
لیکن ہم بھی تند بپھرتی موجوں کا اک دھارا تھے
انیائے کے سوکھے جنگل کو جھلساتی جوالا تھے
نا ہم اتنے چپ چپ تھے تب، نا ہم اتنے تنہا تھے
اپنی ذات میں راجا تھے ہم اپنی ذات میں سینا تھے
طوفانوں کا ریلا تھے ہم بلوانوں کی سینا تھے

جمعرات، 6 فروری، 2014

دل ٹھہرنے دے تو آنکھیں بھی جھپکتے جاویں

دل ٹھہرنے دے تو آنکھیں بھی جھپکتے جاویں
ہم کہ تصویر بنے بس تجھے تکتے جاویں

چوبِ نم خوردہ کی مانند سلگتے رہے ہم
نہ تو بجھ پائیں نہ بھڑکیں نہ دہکتے جاویں

تیری بستی میں تیرا نام پتہ کیا پوچھا
لوگ حیران و پریشان ہمیں تکتے جاویں

کیا کرے چارہ کوئی جب ترے اندوہ نصیب
منہ سے کچھ بھی نہ کہیں اور سسکتے جاویں

کوئی نشے سے کوئی تشنہ لبی سے ساقی
تری محفل میں سبھی لوگ بہکتے جاویں

کبھی اس یارِسمن بر کے سخن بھی سنیو
ایسا لگتا ہے کہ غنچے سے چٹکتے جاویں

ہم نوا سنجِ محبّت ہیں ہر ایک رُت میں فراز
وہ قفس ہو کہ گلستاں ہو ، چہکتے جاویں

منگل، 4 فروری، 2014

اسے بچائے کوئی کیسے ٹوٹ جانے سے

اسے بچائے کوئی کیسے ٹوٹ جانے سے
وہ دل جو باز نہ آئے فریب کھانے سے

وہ شخص ایک ہی لمحے میں ٹوٹ پھوٹ گیا
جسے تراش رہا تھا میں اک زمانے سے

رکی رکی سی نظر آ رہی ہے نبضِ حیات
یہ کون اٹھ کے گیا ہے میرے سرہانے سے

نہ جانے کتنے چراغوں کو مِل گئی شہرت
اک آفتاب کے بے وقت ڈوب جانے سے

اداس چھوڑ گیا وہ ہر اک موسم کو
گلاب کِھلتے تھے کل جس کے مسکرانے سے

پیر، 3 فروری، 2014

تجھ کو دیکھا ھے جو دریا نے ادھر آتے ھوئے

تجھ کو دیکھا ہے جو دریا نے ادھر آتے ہوئے
کچھ بھنور ڈوب گئے پانی میں چکراتے ہوئے

ہم نے تو رات کو دانتوں سے پکڑ رکھا ہے
چھینا جھپٹی میں افق کھلتا گیا جاتے ہوئے

جھپ سے پانی میں اتر جاتی ہے گلنار شفق
سرخ ہو جاتے ہیں رخساربھی،شرماتے ہوئے

میں نہ ہوں گا تو خزاں کیسے کٹے گی تیری
شوخ پتے نے کہا شاخ سے،مرجھاتے ہوئے

حسرتیں اپنی بلکتیں نہ یتیموں کی طرح
ہم کو آواز ہی دے لیتے ذرا، جاتے ہوئے
اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔