منگل، 27 مئی، 2014

ایک مہرے کا سفر

جب وہ کم عمر ہی تھا
اس نے یہ جان لیا تھا کہ اگر جِینا ہے
بڑی چالاکی سے جِینا ہو گا
آنکھ کی آخری حد تک ہے بساطِ ہستی
اور وہ معمولی سا اِک مُہرہ ہے
ایک اک خانہ بہت سوچ کے چلنا ہو گا
بازی آسان نہیں تھی اس کی
دُور تک چاروں طرف پھیلے تھے
مُہرے
جَلّاد
نہایت سَفّاک
سخت بے رحم
بہت ہی چالاک
اپنے قبضے میں لئے
پوری بِساط
اس کے حصّے میں فقط مات لئے
وہ جِدھر جاتا
اسے مِلتا تھا
ہر نیا خانہ نئی گھات لئے
وہ مگر بچتا رہا
چلتا رہا
ایک گھر
دوسرا گھر
تیسرا گھر
پاس آیا کبھی اَوروں کے
کبھی دُور ہوا
وہ مگر بچتا رہا
چلتا رہا
گو کہ معمولی سا مُہرہ تھا مگر جیت گیا
یوں وہ اک روز بڑا مُہرہ بَنا
اب وہ محفوظ ہے اِک خانے میں
اتنا محفوظ کہ دشمن تو الگ
دوست بھی پاس نہیں آ سکتے
اُس کے اِک ہاتھ میں ہے جیِت اُس کی
دوسرے ہاتھ میں تنہائی ہے

شیشے دلوں کے گردِ تعصب سے اَٹ گئے

شیشے دلوں کے گردِ تعصب سے اَٹ گئے
روشن دماغ لوگ بھی فرقوں میں بٹ گئے

اظہار کا دباؤ بڑا ہی شدید تھا
الفاظ روکتے ہی مرے ہونٹ پھٹ گئے

بارش کو دشمنی تھی فقط میری ذات سے
جونہی مرا مکان گرا ، اَبر چَھٹ گئے

دھرتی پہ اُگ رہی ہیں فلک بوس چمنیاں
جن سے فضائیں عطر تھیں وہ پیڑ کٹ گئے

سپرا پڑوس میں نئی تعمیر کیا ہوئی
میرے بدن کے رابطے سورج سے کٹ گئے

پیر، 26 مئی، 2014

دل لگا لیتے ہیں اہلِ دل، وطن کوئی بھی ہو

دل لگا لیتے ہیں اہلِ دل، وطن کوئی بھی ہو
پھول کو کھلنے سے مطلب ہے، چمن کوئی بھی ہو

صورتِ حالات ہی پر بات کرنی ہے اگر
پھر مخاطب ہو کوئی بھی، انجمن کوئی بھی ہو

ہے وہی لاحاصلی دستِ ہنر کی منتظر
آخرش سر پھوڑتا ہے، کوہکن کوئی بھی ہو

شاعری میں آج بھی ملتا ہے ناصؔر کا نشاں
ڈھونڈتے ہیں ہم اسے، بزمِ سخن کوئی بھی ہو

عادتیں اور حاجتیں باصؔر بدلتی ہیں کہاں
رقص بِن رہتا نہیں طاؤس، بَن کوئی بھی ہو

باصؔر سلطان کاظمی

بدھ، 21 مئی، 2014

جنت سے جون ایلیا کا انور مقصود کے نام خط

انو جانی، تمہارا خط ملا، پاکستان کے حالات پڑھ کر کوئی خاص پریشانی نہیں ہوئی۔ یہاں بھی  اسی قسم کے حالات چل رہے ہیں۔شاعروں اور ادیبوں نے مر مر کر یہاں کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔مجھے یہاں بھائیوں کے ساتھ رہنے کا کہا گیا تھا، میں نے کہا کہ میں زمین پر بھی بھائیوں کے ساتھ ہی رہا کرتا تھا، مجھے ایک الگ  کوارٹر عنایت فرمائیں۔مصطفیٰ زیدی نے یہ کام کر دیا اور مجھے کواٹر مل گیا، مگر اس کا ڈیزائن نثری نظم کی طرح کا ہے جو سمجھ میں تو آجاتی ہے لیکن یاد نہیں رہتی، روزانہ بھول جاتا ہوں کہ میرا بیڈ روم کہاں ہے۔ لیکن اس کوارٹر میں رہنے کا ایک فائدہ ہے، میر تقی میر کا گھر سامنے ہے۔ ان کے 250 اشعار جن میں وزن کا  فقدان تھا، نکال چکا ہوں مگر میر سے کہنے کی ہمت نہیں ہو رہی۔

کُوچہ شعر و سخن میں سب سے بڑا گھر غالب کا ہے۔میں نے میر سے کہا آپ غالب سے بڑے شاعر ہیں آپکا گھر ایوانِ غالب سے بڑا ہونا چاہئے، میر نے کہا ، دراصل وہ گھر غالب کے سسرال کا ہے، غالب نے اس پر قبضہ جما لیا ہے۔میر کے گھر کوئی نہیں آتا، سال بھر کے عرصے میں بس ایک بار ناصر کاظمی آئے وہ بھی میر کے کبوتروں کو دیکھنے کے لئے۔ایوانِ غالب مغرب کے بعد کھلا رہتا ہے، جس کی وجہ تم جانتے ہو

مجھے کیا بُرا تھا، گر ایک “بار” ہوتا۔

یہاں آکر یہ مصرعہ مجھے سمجھ میں آیا۔ اس میں “بار”انگریزی والا ہے۔

دو مرتبہ غالب نے مجھے بھی بلوایا لیکن منیر نیازی نے یہاں بھی میرا پتا کاٹ دیا۔سودہ کا گھر میرے گوارٹر سے سو قدم کے فاصلے پر ہے۔یہاں آنے کے بعد میں ان سے ملنے گیا، مجھے دیکھتے ہی کہنے لگے، میاں! تم میرا سودا لا دیا کرو۔مان گیا۔ سودہ کا سودا لانا میرے لئے باعث عزت ہے۔ لیکن جانی!جب سودہ حساب مانگتے تھے تو مجھ پر قیامت گزار جاتی تھی۔جنت کی مرغی اتنی مہنگی لے آئے، حلوہ کیا نیاز فتح پوری کی دکان سے لے آئے؟، تمہیں ٹینڈوں کی پہچان نہیں ہے؟ ہر چیز پہ اعتراض۔ مجھے لگا تھا کہ وہ شک کرنے لگے ہیں کہ میں سودے میں سے پیسے رکھ لیتا ہوں۔4 روز پہلے میں نے ان سے کہہ دیا کہ میں اردو ادب کی تاریخ کاواحد شاعر ہوں جو اسی لاکھ کیش چھوڑ کے یہاں آیا ہے۔آپکے ٹینڈوں سے کیا کماؤں گا۔آپکو بڑا شاعر مانتا ہوں اس لئے کام کرنے کو تیار ہوا، آپکی شاعری سے کسی قسم کا فائدہ نہیں اٹھایا، آپکی کوئی زمین استعمال نہیں کی۔آئیندہ اپنا سودا فیض احمد فیض سے منگوایا کیجیئے، تاکہ آپکا تھوڑا بہت قرض تو چکائیں۔میرے ہاتھ میں بینگن تھا، وہ ان کو تمایا اور کہا:

بینگن کو میرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں

ایک شہد کی نہر کے کنارے احمد فراز سے ملاقات ہوئی، میں نے کہا میرے بعد آئے ہو اس لئے خود کو بڑا شاعر مت سمجھنا، فراز نے کہا، مشاعرے میں نہیں آیا۔ پھر مجھ سے کہنے لگے، امراؤ جان کہاں رہتی ہے؟ میں نے کہا، رسوا ہونے سے بہتر ہے گھر چلے جاؤ، مجھے نہیں معلوم کہا وہ کہاں رہتی ہے۔

جانی! ایک حُور ہے جو ہر جمعرات کی شام میرے میرے گھر آلو کا بھرتا پکا کے لے آتی ہے۔شاعری کا بھی شوق ہے، خود بھی لکھتی ہے، مگر جانی! جتنی دیر وہ میرے گھر رہتی ہے صرف مشتاق احمد یوسفی کا ذکر کرتی ہے۔اس کو صرف مشتاق احمد یوسفی سے ملنے کا شوق ہے۔ میں نے کہا، خدا ان کو لمبی زندگی دے، پاکستان کو ان کی بہت ضرورت ہے، اگر ملنا چاہتی ہو تو زمین پر جاؤ، جس قسم کی شاعری کر رہی ہو کرتی رہو، وہ خود تمہیں ڈھونڈ نکالیں گے اور پکنک منانے سمندر کے کنارے  لے جائینگے۔ابنِ انشاء، سید محمد جعفری، دلاور فگار، فرید جبال پوری اور ضمیر جعفری ایک ہی کوارٹر میں رہتے ہیں۔ ان لوگوں نے 9 نومبر کو اقبال کی پیدائش کے سلسلے میں ڈنر کا اہتمام کیا تھا۔اقبال، فیض، قاسمی، صوفی تبسم، فراز اور ہم وقتِ مقررہ پر پہنچ گئے۔کوارٹر میں اندھیرا تھا اور دروازے پر پرچی لگی تھی: “ہم لوگ جہنم کی بھینس کے پائے کھانے جا رہے ہیں، ڈنر اگلے سال 9 نومبر کو رکھا ہے۔”اگلے دن اقبال نے پریس کانفرنس کی اور ان سب کی ادبی محفلوں  میں شرکت پر پابندی لگا دی۔

تم نے اپنے خط میں مشفق خواجہ کے بارے میں پوچھا تھا۔ وہ یہاں اکیلے رہتے ہیں، کہیں نہیں جاتے ۔ مگر حیرت کی بات ہے جانی!میں نے ان کے گھر اردو اور فارسی کے بڑے بڑے شاعروں کو آتے جاتے دیکھا ہے۔یہاں آنے کی بھی جلدی نہ کرنا کیونکہ  تمہارے وہاں رہنے میں میرا بھی فائدہ ہے۔اگر تم بھی یہاں آگئے پھر وہاں مجھے کون یاد کرے گا؟؟؟

جیتے رہو اور کسی نہ کسی پر مرتے رہو،ہم بھی کسی نہ کسی پر مرتے رہے مگر جانی!جینے کا موقع نہیں ملا۔

پیر، 12 مئی، 2014

وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا

وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا، اب اس کا حال بتائیں کیا
کوئی مہر نہیں، کوئی قہر نہیں، پھر سچا شعر سنائیں کیا

اک ہجر جو ہم کو لاحق ہے، تا دیر اسے دہرائیں کیا
وہ زہر جو دل میں اتار لیا، پھر اس کے ناز اٹھائیں کیا

اک آگ غمِ تنہائی کی، جو سارے بدن میں پھیل گئی
جب جسم ہی سارا جلتا ہو، پھر دامنِ دل کو بچائیں کیا

پھر آنکھیں لہو سے خالی ہیں، یہ شمعیں بجھنے والی ہیں
ہم خود بھی کسی سے سوالی ہیں، اس بات پہ ہم شرمائیں کیا

ہم نغمہ سرا کچھ غزلوں کے، ہم صورت گر کچھ خوابوں کے
بے جذبۂ شوق سنائیں کیا، کوئی خواب نہ ہو تو بتائیں کیا

بدھ، 7 مئی، 2014

زاویہ کوئی مقرر نہیں ہونے پاتا


زاویہ کوئی مقرر نہیں ہونے پاتا
دائمی ایک بھی منظر نہیں ہونے پاتا

عمر ِمصروف کوئی لمحۂ ِفرصت ہو عطا
میں کبھی خود کو میسّر نہیں ہونے پاتا

آئے دن آتش و آہن سے گزرتا ہے مگر
دل وہ کافر ہے کہ پتھر نہیں ہونے پاتا

کیا اس جبر ِمشیت کی غنیمت سمجھوں
جو عمل میرا مقدّر نہیں ہونے پاتا

چشم پر آب سمو لیتی ہے آلام کی گرد
آئینہ دل کا مکدر نہیں ہونے پاتا

فن کے کچھ اور بھی ہوتے ہیں تقاضے محسنؔ
ہر سخن گو تو سخنور نہیں ہونے پاتا
اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔