اتوار، 29 جون، 2014

اپنی دھوپ میں بھی کچھ جل

اپنی دھوپ میں بھی کچھ جل
ہر سائے کے ساتھ نہ ڈھل

لفظوں کے پھولوں پہ نہ جا
دیکھ سروں پہ چلتے ہل

دنیا برف کا تودہ ہے
جتنا جل سکتا ہے جل

غم کی نہیں آواز کوئی
کاغذ کالے کرتا چل

بن کے لکیریں ابھرے ہیں
ماتھے پر راہوں کے بل

میں نے تیرا ساتھ دیا
مرے منہ پر کالک مل

آس کے پھول کھلے باقؔی
دل سے گزرا پھر بادل

جمعہ، 20 جون، 2014

بڑی آگ ہے، بڑی آنچ ہے، ترے میکدے کے گلاب میں

بڑی آگ ہے،  بڑی آنچ ہے،  ترے میکدے کے گلاب میں
کئی بالیاں ،  کئی چوڑیاں یہاں گھل رہی ہیں شراب میں

وہی لکھنے پڑھنے کا شوق تھا ،  وہی لکھنے پڑھنے کا شوق ہے
ترا نام لکھنا کتاب پر،  ترا نام پڑھنا کتاب میں

وہ بدن سخن کا جمال ہے، وہ جمال اپنی مثال ہے
کوئی ایک مصرعہ نہ کہہ سکا، کبھی اس غزل کے جواب میں

یہ نوازشیں یہ عنایتیں، ترا شکر کیسے ادا کروں
سرِ راہ پھول بچھا دیے، مرے آنسوؤں کے جواب میں

مرے زرد پتوں کی چادریں بھی ہوائیں چھین کے لے گئیں
میں عجب گلاب کا پھول ہوں‘جو برہنہ سر ہے شباب میں

یہ دُعا ہے ایسی غزل کہوں ‘کبھی پیش جس سے میں کرسکوں
کوئی حرف تیرے حضور میں‘کوئی شعر تیری جناب میں

نوٹ: پہلے چار اشعار میں نے مشاعرے سے سن کر لکھے ہیں۔ جبکہ آخری دو اشعار جب انٹرنیٹ پر سرچ کیا۔ تو ایک جگہ ملے۔

جمعرات، 19 جون، 2014

ستم کرو گے ستم کریں گے

ستم کرو گے ستم کریں گے

کرم کروگے کرم کریں گے
ہم آدمی ہیں تمھارے جیسے
جوتم کروگے وہ ہم کریں گے

چلائے خنجر تو گھاؤ دیں گے
بنوگے شعلہ آلاؤ دیں گے
ہمیں ڈبونے کی سوچنا مت
تمہیں بھی کاغذ کی ناؤ دیں گے
قلم ہوئے تو قلم کریں گے
جو تم کروگے وہ ہم کریں گے

تم اُٹھتے ہاتھوں کو کاٹ ڈالو
کہ شہر لاشوں سے پاٹ ڈالو
پھر اگلا موسم ہمارا ہوگا
چمن کا سبزہ بھی چاٹ ڈالو
کہ ہم بھی نہ اس سے کم کریں گے
جوتم کروگے وہ ہم کریں گے

گلاب دوگے، گلاب دیں گے
محبتوں کا جواب دیں گے
خوشی کا موسم جو ہم کو دو گے
تمہیں گلوں کی کتاب دیں گے
کبھی سروں کو نہ خم کریں گے
جو تم کروگے وہ ہم کریں گے

وہ دیکھو ظالم کی ہار دیکھو
خدا کی لاٹھی کی مار دیکھو
پروں کو سب کے جو کاٹتا ہے
سمے کے خنجر کی دھار دیکھو
چلو کے جشن اب ہم کریں گ
جو تم کروگے وہ ہم کریں گے

ہواؤں کو اب لگام دے لو
سنو نہ چنگاریوں سے کھیلو
ملی جو رائی بنے گی پروت
ذرا حقیقت سے کام لے لو
ستم کے بدلے ستم کریں گے
جو تم کروگے وہ ہم کریں گے

ابھی رمق بھر ہے روشنی کی 
کہ آس باقی ہے زندگی کی
اگر بجھایا آلاؤ تو پھر
نہ ہوگی اک بوند روشنی کی
چراغ کچھ ہم بھی کم کریں
جو تم کروگے وہ ہم کریں گے

نیائے تم کو پکارتا ہے
سنو جو تم میں اُدارتا ہے
ہمیشہ جیتی ہے آدمیت
جو ظلم کرتا ہے ہارتا ہے
ستم کا سر ہم قلم کریں گے
جو تم کروگے وہ ہم کریں گے

ستم کروگے ستم کریں گے
جو تم کروگے وہ ہم کریں گے

بدھ، 18 جون، 2014

ہم کہاں آئنہ لے کر آئے

ہم کہاں آئنہ لے کر آئے
لوگ اٹھائے ہوئے پتھر آئے

دل کے ملبے میں دبا جاتا ہوں
زلزلے کیا مرے اندر آئے

جلوہ جلوے کے مقابل ہی رہا
تم نہ آئینے سے باہر آئے

دل سلاسل کی طرح بجنے لگا
جب ترے گھر کے برابر آئے

جن کے سائے میں صبا چلتی تھی
پھر نہ وہ لوگ پلٹ کر آئے

شعر کا روپ بدل کر باقیؔ
دل کے کچھ زخم زباں پر آئے

بدھ، 11 جون، 2014

کیا پتا ہم کو ملا ہے اپنا

کیا پتا ہم کو ملا ہے اپنا
اور کچھ نشہ چڑھا ہے اپنا

کان پڑتی نہیں آواز کوئی
دل میں وہ شور بپا ہے اپنا

اب تو ہر بات پہ ہوتا ہے گماں
واقعہ کوئی سنا ہے اپنا

ہر بگولے کو ہے نسبت ہم سے
دشت تک سایہ گیا ہے اپنا

خود ہی دروازے پہ دستک دی ہے
خود ہی در کھول دیا ہے اپنا

دل کی اک شاخ بریدہ کے سوا
چمن دہر میں کیا ہے اپنا

کوئی آواز کوئی ہنگامہ
قافلہ رکنے لگا ہے اپنا

اپنی آواز پہ چونک اٹھتا ہے
دل میں جو چور چھپا ہے اپنا

کون تھا مد مقابل باقیؔ
خود پہ ہی وار پڑا ہے اپنا

اتوار، 8 جون، 2014

اچیاں کندھاں والا گھر سی

اچیاں کندھاں والا گھر سی، رو لیندے ساں کھل کے
ایسی 'وا وگائی او ربا رہِ گئی جندڑی رل کے

چار چپھیرے درد انھیرے، ہنجھو ڈیرے ڈیرے
دکھیارے ونجارے آ گئے کدھر رستہ بھلّ کے

یاد آئیاں کچھ ہور وی تیرے شہر دیاں برساتاں
ہور وی چمکے داغ دلاں دے نال اشکاں دے دھل کے

اپنی گلّ نہ چھڈیں 'جالب' شاعر کجھ وی آکھن
اپنی رنگت کھو دیندے نے، رنگ رنگاں وچ گھل کے

جمعہ، 6 جون، 2014

جالب سائیں کدی کدائیں چنگی گلّ کہہ جاندا اے

جالب سائیں کدی کدائیں چنگی گلّ کہہ جاندا اے
لکھ پوجو چڑھدے سورج نوں، آخر ایہہ لہہ جاندا اے

باجھ تیرے او دل دے ساتھی، دل دی حالت کی دساں
کدی کدی ایہہ تھکیا راہی رستے وچّ بہہ جاندا اے

ساندل بار وسیندیئے ہیرے وسدے رہن تیرے ہاسے
دو پل تیرے غم دا پراہنا اکھیاں وچ رہِ جاندا اے

ہائے دوآبے دی اوہ دنیاں جتھے محبت وسدی سی
ہنجھو بن کے دکھ وطناں دا اکھیاں 'چوں وہِ جاندا اے

فجرے اوہ چمکاندا ڈٹھا 'جالب' ساری دنیاں نوں
راتیں جہڑا سیک دکھاں دے ہسّ ہسّ کے سہِ جاندا اے

منگل، 3 جون، 2014

ہر بے زباں کو شعلہ نوا کہ لیا کرو

ہر بے زباں کو شعلہ نوا کہ لیا کرو
یارو سکوت ہی کو صدا کہ لیا کرو

خود کو فریب دو ، کہ نہ ہو تلخ زندگی
ہر سنگ دل کو جانِ وفا کہ لیا کرو

گر چاہتے ہو خوش رہیں کچھ بندگانِ خاص
جتنے صنم ہیں ان کو خدا کہ لیا کرو

انسان کا اگر قد و قامت نہ بڑھ سکے
تم اُس کو نقصِ آب و ہوا کہ لیا کرو

اپنے لیے اب ایک ہی راہِ نجا ت ہے
ہر ظلم کو رضائے خدا کہ لیا کرو

لے دے کہ اب یہی ہے نشانِ ضیا قتیلؔ
جب دل جلے تو اُس کو دیا کہ لیا کرو
اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔