ہفتہ، 26 جولائی، 2014

ڈاکو

کل رات میرا بیٹے مرے گھر
چہرے پر منڈھے خاکی کپڑا
بندوق اٹھائے آن پہنچا
نوعمری کی سرخی سے رچی
اس کی آنکھیں جان گئی
اور بچپن کے صندل سے منڈھا
اس کا چہرہ پہچان گئی
وہ آیا تھا خود اپنے گھر
گھر کی چیزیں لے جانے کو
ان کہی کہی منوانے کو
باتوں میں دودھ کی خوشبو تھی
جو کچھ بھی سینت کے رکھا تھا
میں ساری چیزیں لے آئی
ایک لعلِ  بدخشاں کی چڑیا
سونے کا ہاتھی چھوٹا سا
چاندی کی اک ننھی تختی
ریشم کی پھول بھری ٹوپی
اطلس کا نام لکھا جزدان
جزدان میں لپٹا اک قرآن
پر وہ کیسا دیوانہ تھا
کچھ توڑ گیا کچھ چھوڑ گیا
اور لے بھی گیا ہے وہ تو کیا
لوہے کی بدصورت گاڑی
پٹرول کی بو بھی آئے گی
جس کے پہیے بھی ربر کے ہیں
جو بات نہیں کر پائے گی
بچہ پھر آخر بچہ ہے

منگل، 15 جولائی، 2014

دشتِ افسُردہ میں اک پھول کھلا ہے سو کہاں

دشتِ افسُردہ میں اک پھول کھلا ہے سو کہاں
وہ کسی خوابِ گریزاں میں مِلا ہے سو کہاں


ہم نے مدت سے کوئی ہجو نہ واسوخت کہی
وہ سمجھتے ہیں ہمیں اُن سے گلہ ہے سو کہاں


ہم تیری بزم سے اُٹھے بھی تو خالی دامن
لوگ کہتے ہیں کہ ہر دُ کھ کا صلہ ہے سو کہاں


آنکھ اسی طور برستی ہے تو دل رستا ہے
یوں تو ہر زخم قرینے سے سِلا ہے سو کہاں


بارہا کوچۂ جاناں سے بھی ہو آئے ہیں
ہم نے مانا کہیں جنت بھی دلا ہے سو کہاں


جلوۂ دوست بھی دُھندلا گیا آخر کو فراز
ورنہ کہنے کو تو غم، دل کی جلا ہے سو کہاں

آج



آج

ساتھیو! میں نے برسوں تمہارے لیے
چاند، تاروں،بہاروں کے سپنے بنے

حسن اور عشق کے گیت گاتا رہا
آرزوؤں کے ایواں سجاتا رہا
میں تمہارا مغنی تمہارے لیے
جب بھی آیا نئے گیت گاتا رہا

آج لیکن مرے دامنِ چاک میں
گردِ راہِ سفر کے سوا کچھ نہیں
میرے بربط کے سینے میں نغموں کا دم گھٹ گیا
تانیں چیخوں کے انبار میں ‌دب گئیں
اور گیتوں کے سر ہچکیاں بن گئے
میں تمہارا مغنی ہوں، نغمہ نہیں ہوں
اور نغمے کی تخلیق کا سازو ساماں
ساتھیو! آج تم نے بھسم کر دیا ہے
اور میں اپنا ٹوٹا ہوا ساز تھامے
سرد لاشوں کے انبار کو تک رہا ہوں

میرے چاروں طرف موت کی وحشتیں ناچتی ہیں
اور انساں کی حیوانیت جاگ اٹھی ہے
بربریت کے خوں خوار عفریت
اپنے ناپاک جبڑوں کو کھولے
خون پی پی کے غرا رہے ہیں

بچے  ماؤں کی گودوں میں سہمے ہوئے ہیں
عصمتیں سر برہنہ پریشان ہیں
ہر طرف شورِ آہ و بکا ہے
اور میں اس تباہی کے طوفاں میں
آگ اور خوں کے ہیجان میں
سرنگوں‌اور شکستہ مکانوں کے ملبے سے پر راستوں پر
اپنے نغموں کی جھولی پسارے
دربدر پھر رہا ہوں!
مجھ کو امن اور تہذیب کی بھیک دو
میری گیتوں کی لے، میرا سر ، میری نے
میرے مجروح ہونٹوں کو پھر سونپ دو
ساتھیو! میں نے برسوں تمہارے لیے
انقلاب اور بغاوت کے نغمے الاپے
اجنبی راج کے ظلم کی چھاؤں میں
سرفروشی کے خوابیدہ جذبے ابھارے
اور اس صبح کی راہ دیکھی!
جس میں‌اس ملک کی روح آزاد ہو
آج زنجیر محکومیت کٹ چکی ہے
اور اس ملک کے بحر و بر بام و در
اجنبی قوم کے ظلمت افشاں پھریرے کی منحوس چھاؤں سے آزاد ہیں
کھیت سونا اگلنے کو بے چین ہیں
وادیاں لہلہانے کو بے تاب ہیں
کوہساروں کے سینے میں ہیجان ہے
سنگ اور خشت بے خواب و بیدار ہیں
ان کی آنکھوں میں‌تعمیر کے خواب ہیں
ان کے خوابوں‌کو تکمیل کا روپ دو
ملک کی وادیاں، گھاٹیاں، کھیتیاں
عورتیں ‌بچیاں
ہاتھ پھیلائے خیرات کی منتظر ہیں
ان کو امن اور تہذیب کی بھیک دو
ماؤں کو ان کے ہونٹوں کی شادابیاں
ننھے بچوں کو ان کی خوشی بخش دو
مجھ کو میرا ہنر میری لے بخش دو
آج ساری فضا ہے بھکاری
اور میں اس بھکاری فضا میں
اپنے نغموں کی جھولی پسارے
دربدر پھر رہا ہوں
مجھ کو پھر میرا کھویا ہوا ساز دو
میں تمہارا مغنی تمہارے لیے
جب بھی آیا نئے گیت لاتا رہوں گا

بدھ، 9 جولائی، 2014

فنا فی العشق ہونے کو جو بربادی سمجھتے ہو

فنا فی العشق ہونے کو جو بربادی سمجھتے ہو
تو پھر یہ طے ہے کہ تم دنیا کو بنیادی سمجھتے ہو

تمہیں ہم عشق کی سرگم سناتے ہیں، یہ بتلاؤ
فنا کے راگ سے واقف ہو، سم وادی سمجھتے ہو

کسی صاحبِ جنوں سے عقل کی تعریف سن لینا
نری رہزن ہے جس کو مرشد و ہادی سمجھتے ہو!
اسی کی شوخیٔ تحریر کا ایک نقش ہوں میں بھی
بقول میرزا تم جس کو فریادی سمجھتے ہو

حقیقت تو کجا! تم تو طریقت بھی نہیں سمجھے
کہ تم تو جسم سے جانے کو آزادی سمجھتے ہو

اسی کے خوانِ نعمت کے سگانِ لقمۂ تر ہو
تعجب کیا! جو تم دنیا کو شہزادی سمجھتے ہو

عجب ہو تم بھی اہلِ منبر و محراب، جو ہم کو
کبھی کافر سمجھتے تھے، اب الحادی سمجھتے ہو

تو پھر تم ہی بتادو ہم کہاں جائیں علی زریون
ہماری سادگی کو بھی تم استادی سمجھتے ہو

منگل، 1 جولائی، 2014

تم کہتے ہو۔۔۔۔

تم کہتے ہو
"وہ " پوچھے گا
"کتنی نمازیں پڑھیں تھیں کتنے روزے رکھے ؟"
اس کے علاوہ بھی کچھ باتیں تم کہتے ہو
"ایسا ہوگا، اتنا ہوگا، یوں یوں ہوگا "
جب سب کچھ معلوم ہے تو پھر ڈرتے کیوں ہو؟
پڑھو نمازیں!
رکھو روزے!
یہ جو سب کچھ تم کہتے ہو، اس کی مرضی پر ہے سارا
چاہے پوچھ لے یا نا پوچھے
اس کی نماز ہے، اس کا روزہ
وہ تو حشر میں پوچھے گا پر تم تو اسی زمیں پر مجھ سے پوچھ رہے ہو۔۔۔!
کتنی نمازیں پڑھیں ہیں کتنے روزے رکھے؟
تم کوئی رب ہو؟
تم نے صلاۃ کا حکم دیا تھا؟
روزے تم نے فرض کئے تھے؟
جو تم پوچھو؟
وہ پوچھے تو جم جم پوچھے
تم کیوں پوچھو؟

لیکن ٹھہرو!
دیوانے سے پوچھ ہی بیٹھے ہو تو ٹھہرو!
اصل سوال کی بھکشا لے لو۔۔۔!
وہ جو اصل سوال ہے
یہ ہے
وہ پوچھے گا
"میں نے تم کو زندگی دی تھی"
کتنی "جی" تھی؟

خاموش ہو کیوں دادِ جفا کیوں نہیں دیتے

خاموش ہو کیوں دادِ جفا کیوں نہیں دیتے
بسمل ہو تو قاتل کو دعا کیوں نہیں دیتے

وحشت کا سبب روزنِ زنداں تو نہیں ہے
مہر و مہ و انجم کو بجھا کیوں نہیں دیتے

اک یہ بھی تو اندازِ علاجِ غمِ جاں ہے
اے چارہ گرو، درد بڑھا کیوں نہیں دیتے

منصف ہو اگر تم تو کب انصاف کرو گے
مجرم ہیں اگر ہم تو سزا کیوں نہیں دیتے

رہزن ہو تو حاضر ہے متاعِ دل و جاں بھی
رہبر ہو تو منزل کا پتا کیوں نہیں دیتے

کیا بیت گئی اب کے فراؔز اہلِ چمن پر
یارانِ قفس مجھ کو صدا کیوں نہیں دیتے

بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے

بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے
تم اچھے مسیحا ہو شفا کیوں نہیں دیتے

دردِ شبِ ہجراں کی جزا کیوں نہیں دیتے
خونِ دلِ وحشی کا صلہ کیوں نہیں دیتے

مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے

ہاں نکتہ ورو لاؤ لب و دل کی گواہی
ہاں نغمہ گرو ساز صدا کیوں نہیں دیتے

پیمانِ جنوں ہاتھوں کو شرمائے گا کب تک
دل والو، گریباں کا پتا کیوں نہیں دیتے

بربادیء دل جبر نہیں فؔیض کسی کا
وہ دشمنِ جاں ہے تو بھلا کیوں نہیں دیتے
اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔