ہفتہ، 23 اگست، 2014

لوگوں سے کیا شکوہ

نہیں !
لوگوں سے کیا شکوہ
اور اِن لوگوں سے کیا شکوہ
یہ بے چارے تو ویسے بھی
یونہی عیسیٰ کی بھیڑیں ہیں
جنہیں کوئی بھی چرواہا
محبّت،امن اور تعمیر کا چارہ دکھا کر جس طرف بھی ہانک لے جائے
یہ جائیں گے
تمنّا کی "نظر بندی" تو یوں بھِی سخت ھوتی ہے
خیالوں اور نا پختہ ارادوں کی جہاں بھگدڑ مچی ہو
پھر وہاں کس کو بھلا معلوم پڑتا ھے
کہ اب اگلے قدم پر سامنے منزل ہے یا کھائی .. !!
نہیں بھائی .. !
بھلا لوگوں سے کیا شکوہ ؟؟
جہاں سچ بولنے والی زبانیں کاٹ دی جائیں
زمینیں تو زمینیں ہیں
جہاں پر ہاریوں کی بیٹیاں بھی "مالکوں" میں بانٹ لی جائیں
جہاں اک "نظم" لکھنے سے
عقیدت کے بتوں کی شانِ اقدس پر ہزاروں حرف آتے ہوں
جہاں سانسوں پہ پہرے ہوں
جہاں تحقیق پر تسلیم نافذ ہو
جہاں سنگیت پر فتووں کی "بندش" ہو
جہاں کارِ معیشت ،اہلِ ِ سرمایہ کی دلّالی پہ قائم ہو
جہاں پر جبر اپنی آخری حد پر پہنچتا ہو
وہاں پیاسے ،سرابوں کو بھی دریا مان لیتے ہیں
وہاں چوروں اچکّوں اور ٹھگوں کو بھی مسیحا جان لیتے ہیں
کہ شاید اب سُنی جائے
کہ شاید اب سُنی جائے
سو ان خوش باش چہروں اور اُمیدوں سے بھری آنکھوں سے کچھ شکوہ نہیں ہے
جو سمجھتے ہیں
کہ بس منزل چلی آئی
ذرا یہ دھند چھٹنے دو
یہ ھا ھا کار جو اس دم گلی کوچوں میں رائج ہے
اسے خاموش ہونے دو
تمنّا کی "نظر بندی" ذرا سی ٹوٹنے تو دو
یہی خوش باش چہرے اور اُمیدوں سے بھری آنکھیں
اور آنکھوں میں سجے سپنے
یہ خود ہی جان جائیں گے
جنہیں موسیٰ سمجھتے تھے وہ سب فرعون نکلے ہیں۔۔۔۔۔ !!!

جمعرات، 21 اگست، 2014

رات کلہنی

دنیاں بھر دے کالے چٹے چور لٹیرے
سوچیں پے گئے - کی ہویا رات جے مکّ گئی
جے دھرتی دے کامیاں اگے گردن جھکّ گئی
کی ہووےگا ؟

رات نوں روکو
روشنیاں دے ہڑ دے اگے
اچیاں اچیاں کندھاں چقو
رات نوں روکو
ہڑ دی گونج تے گھوکر سن کے
تاجاں تے تختاں دی دنیاں کمب اٹھی اے
اک مٹھی اے

جدوں ایہناں دی لٹکھسٹّ نوں خطرہ پیندا
ربّ رسول نوں خطرے دے وچ پا دیندے نے
ربّ رسول دے حکم نال ایہہ رہن نہیں لگے
خونی قاتل چور لٹیرے کالے بگے

'جالبؔ' بھاویں لکھ اکٹھے ہو ہو بہون
نہیں ہن رہنی
رات کلہنی
نہیں ہن رہنی
رات کلہنی

بدھ، 20 اگست، 2014

وقت کی عمر کیا بڑی ہو گی

وقت کی عمر کیا بڑی ہو گی
اک ترے وصل کی گھڑی ہو گی

دستکیں دے رہی ہے پلکوں پر
کوئی برسات کی جھڑی ہو گی

کیا خبر تھی کہ نوکِ خنجر بھی
پھول کی اک پنکھڑی ہو گی

زلف بل کھا رہی ہے ماتھے پر
چاندنی سے صبا لڑی ہو گی

اے عدم کے مسافرو ہشیار
راہ میں زندگی کھڑی ہو گی

کیوں گرہ گیسوؤں میں ڈالی ہے
جاں کسی پھول کی اڑی ہو گی

التجا کا ملال کیا کیجئے
ان کے در پر کہیں پڑی ہو گی

موت کہتے ہیں جس کو اے ساغر
زندگی کی کوئی کڑی ہو گی

جمعرات، 14 اگست، 2014

طویل نظم - اگر تم ساتھ نہ دو (رفیقۂ حیات سے ) - نعیم صدیقی

اے جاں اگر تم ساتھ نہ دو
تو تنہا مجھ سے کیا ہو گا!
تم آؤ فرض بلاتا ہے
دنیا میں تغیر آتا ہے
ایک طوفان جوش دکھاتا ہے
اک فتنہ شور مچاتا ہے
ہم لوگ ابھی آزاد نہیں
ذہنوں کی غلامی باقی ہے
تقدیر کی شفقت سے حاصل؟
تدبیر کی خامی باقی ہے
سینوں کے حرم سونے ہیں ابھی
امیدوں سے آباد نہیں
چہروں کی چمک اک دھوکا ہے
کوئی بھی جوانی شاد نہیں
چھوڑی ہیں جڑیں زنجیروں نے
ان میں سے کسی کو نوچیں تو
اعصاب تڑخنے لگتے ہیں
آزادی سے کچھ سوچیں تو
اندام چٹخنے لگتے ہیں
ان زنجیروں کو کیا کیجیے!
ہے ان سے گہرا پیار ہمیں
ان زنجیروں کے بجنے کی
لگتی ہے بھلی جھنکار ہمیں
مغرب کے اصولوں کے بندھن
افسوس نہ اب تک ٹوٹ سکے
ہم کہنہ مشق بھکاری ہیں!
مشکل ہے کہ عادت چھوٹ سکے
کب بویا اپنا بیج کوئی
جو نم پائے اور پھوٹ سکے
تقلید کے ایسے خوگر ہیں
آزاد روی سے ڈرتے ہیں
'معشوق' جو ہم سے روٹھ گیا
تصویر پہ اس کی مرتے ہیں
اغیار لکیریں کھینچ گیا
ہم لوگ فقیری کرتے ہیں
محنت سے کمائی کی نہ کبھی
خیرات سے جھولی بھرتے ہیں
گو دورِ غلامی بیت گیا
ملت کی خودی کو پیس گیا
ہم جیت کے بازی ہار گئے
اور دشمن ہر کر جیت گیا
اس حال میں گو مایوس نہیں
بڑھنے کی ہمت کرتا ہوں
پر تم سے بھید چھپاؤں کیا
دل بیٹھ نہ جائے ڈرتا ہوں
اس وقت اگر تم ساتھ نہ دو
تو تنہا ہم سے کیا ہو گا!
جو کام ہمارے ذمے تھا
وہ کام ابھی تو باقی ہے
تمہید بہت ہی خوب سہی
اتمام ابھی تو باقی ہے!
اے جان! اگر تم ساتھ نہ دو
تو تنہا مجھ سے کیا ہو گا
انسان بناؤ تم جیسے
تہذیب بھی ویسی بنتی ہے
تہذیب ہے عورت کے بس میں
وہ کیسی نسلیں جنتی ہے
وہ کیسے مرد بناتی ہے
وہ کیا اخلاق سکھاتی ہے
کیا جذبے اکر گھول کے وہ
بچے کو دودھ پلاتی ہے
کس کیفیت کی مستی میں
وہ میٹھی لوری گاتی ہے
گر رنج ہو تو صاف کہوں
یہ تم ہی تو تھیں! کیا بھول گئیں!
خود تم نے نظامِ باطل کو
گودی میں سپاہی پال دئیے
بیداد کی کل یاں کیسے چلی؟
تم نے ہی تو پرزے ڈھال دئیے
ابلیس نے مانگے کارندے
تو تم نے اپنے لال دئیے
تم نے تو کلیجوں کے ٹکڑے
منڈی میں لا کر ڈال دئیے
تم سے جو تقاضے دین کے تھے
افسوس کہ تم نے ٹال دئیے
ہے مرد کی ذمے جتنی خطا
اتنی ہی تو ذمہ دار ہو تم
اب میں کفارہ دیتا ہوں
کیا ساتھ مرے تیار ہو تم؟
اے جان! اگر تم ساتھ نہ دو
تو تنہا مجھ سے کیا ہو گا!


لڑنا ہے درونِ در تم کو
بیرونِ در کے فتنوں سے
میں اپنی جان لڑاؤں گا
قلعے کی تم رکھوالی ہو
قلعے سے باہر دشمن پر
دیکھو گی، میں چھا جاؤں گا
تم نسوانیت کو بدلو
احساسِ فرض دلا کر میں
مردوں کو مرد بناؤں گا
تم اچھے پرزے ڈھال کے دو
میں نظم تمدن کی کل کو
پھر دین کے ڈھب پر لاؤں گا
عورت کا تغافل تھا جس نے
ہٹلر، چرچل اور اسٹالن
اس دنیا میں بن جانے دئیے
عیشوں میں یہ ظالم مست رہی
جنگاہ میں خنجر جذبوں کے
سو بار یہاں تن جانے دئیے
ہاتھوں میں لٹیروں کے یونہی
تہذیب کے مخزن جانے دئیے
عورت نے خزاں کے قبضے میں
اخلاق کے گلشن جانے دئیے
ہر جنگ کے پردے کے پیچھے
عورت کی خطائیں رقصاں ہیں
عورت کے تغافل کے مارے
یہ غیر مکمل انساں ہیں
یہ ہر خواہش کے بندے ہیں
اور خواہش ہی میں غلطاں ہیں
افکار پریشان ہیں ان کے
افکار، کہ مار پیچاں ہیں؟
یہ دانش مند درندے ہیں!
افسوس کے ان کے ہاتھوں سے
کتنے ہی گھرانے ویراں ہیں
مستقبل کو ان فتنوں سے
عورت ہی بچانے والی ہے
قوموں کے مٹانے والی ہے
قوموں کے بچانے والی ہے
جس نقشے پر بھی یہ چاہے
نسلوں کو اٹھانے والی ہے
اے جان! اگر تم ساتھ نہ دو
تو تنہا مجھ سے کیا ہو گا!
زنداں جو فرنگی حکمت کا
دوصدیوں میں تعمیر ہوا
اب اس پر سنگیں پہرے ہیں
یہ ایک اٹل تقدیر ہوا
ہم اس کے نگہباں ہیں خود ہی
ہم آپ ہیں پہرہ دار اس کے
ہم اس کے پجاری ہیں اب تک
گو جا بھی چکے معمار اس کے
اٹھ جان! کہ اپنے آپ سے ہم
اک سخت بغاوت کر دیکھیں
خود آپ ہی اپنے جذبوں پر
اک سخت شقاوت کر دیکھیں
افرنگ نے جانے سے پہلے
یاں انڈے بچے دے ہی لئے
باطل نے وراثت بھی چھوڑی
اور ساتھ ہی وارث چھوڑ دئیے
باہر کے فرنگی بھاگ چکے
اب گھر کے "فرنگی" باقی ہیں
قرآن کی مے تھے جو لوگ امیں
وہ کفر کی مے کے ساقی ہیں
جس دین پہ ایماں ہے
اس دین کی یہ تذلیل کریں
کیا ہم یہ سہہ بھی سکتے ہیں؟
قرآں کے حقائق کو ظالم
تاویلوں سے تبدیل کریں
کیا ہم چپ رہ بھی سکتے ہیں
اب تم کو، مجھ کو، دونوں کو
ان باطل کے معماروں کی
تعمیروں سے ٹکرانا ہے
اب تم کو، مجھ کو، دونوں کو
طوفانوں سے لڑ جانا ہے
پر تم سے اگر یہ ہو نہ سکے
تو جاؤ الگ بیٹھ رہو
کچھ مجھ پر کرم فرماؤ نہیں
آوارگی و عریانی سے
للہ مجھے بہکاؤ نہیں
خواہش کے کھلونوں سے جانم!
بچوں کی طرح بہلاؤ نہیں
یہ سرخی، غازہ، کاجل کیا!
یہ چوڑی، بالی، چھاگل کیا!
یہ جادو کے سب چھل بل کیا!
آخر یہ ذہنی ہلچل کیا!
کرنوں کی تراوش سے حاصل؟
جلوؤں کی نمائش سے حاصل؟
اس آگ کی بارش سے حاصل؟
جس سیل میں تم بہتی ہو، بہو
پر مجھ کو بہا لے جاؤ نہیں
میں حق کا سپاہی ہوں مجھ پر
جادو کی طرح سے چھاؤ نہیں
سینے کو مرے برماؤ نہی
تڑپاؤ نہیں، تڑپاؤ نہیں
جو چاہو کرو آزاد ہو تم!
پر فرض سے اپنے میں آزاد نہیں
تم عیاشی کو چاہو تو
فن اس کا مجھ کو یاد نہیں
میں تم کو کروں مجبور تو کیوں؟
جبار نہیں، شداد نہیں
پر تم جو میرا ساتھ نہ دو
کیا یہ مجھ پر بے داد نہیں
اے جان! اگر تم ساتھ نہ دو
تو تنہا مجھ سے کیا ہو گا!


میں تنہا بھی بڑھ سکتا ہوں
اور شاید بڑھتا جاؤں گا
میں حق کی خونی راہوں میں
جو چوٹ بھی آئی کھاؤں گا
اللہ سے یہ امید بھی ہے
اک دن منزل کو پاؤں گا
پر کھلتی ہے تنہائی تو!
تڑپاتی ہے یکتائی تو!
للہ! تم اس کا پاس کرو
حساس ہو تم! احساس کرو
اے جان! اگر تم ساتھ نہ دو
تو تنہا مجھ سے کیا ہو گا!
تن کا تو ساتھ نباہا ہے
کیا من کا ساتھ نباہو گی؟
مجھ کو تم نے چاہا ہے
پر کیا حق کو بھی چاہو گی؟
اب آگے ایک دوراہا ہے
اب راہ تمہاری کیا ہو گی؟
اے جان! اگر تم ساتھ نہ دو!
پھر مجھ کو خدا ہی کافی ہے!
گر تم سے رفاقت ہو نہ سکے
تو جذبۂ راہی کافی ہے!
تم لڑنے سے کتراؤ تو
ایمانِ سپاہی کافی ہے!
پھر بھی میں تم سے کہتا ہوں
تم ساتھ رہو تو بہتر ہے
پیچھے نہ ہٹو تو بہتر ہے!
آگے کو چلو تو بہتر ہے!
اے جان! اگر تم ساتھ نہ دو
تو تنہا مجھ سے کیا ہو گا!


احساسِ خودی کی کمزوری!
یہ عذر کے تم اک عورت ہو
تم ہمت ہو، تم قوت ہو!
تم طاقت ہو، تم جرات ہو!
تم اک پُر جوش جسارت ہو
تم اک با رعب شجاعت ہو
تم اک رنگین قیامت ہو
تم عزت، عفت، عصمت ہو
تم عظمت، شوکت، رفعت ہو
تم رحمت، راحت، شفقت ہو
تم نصف انسانیت ہو!
کیا عذر تراشو گی آخر؟
جب حشر میں پوچھا جائے گا
کیا اپنے قویٰ سے کام لیا؟
جب کفر سے دیں کی ٹکر تھی
تو تم نے کس کا ساتھ دیا؟
اس وقت کہو گی کیا بولو!
ہر عذر کو کانٹے پر تولو!
آنکھیں تو اٹھاؤ، لب کھولو!
اے جان اگر تم ساتھ نہ دو
تو تنہا مجھ سے کیا ہو گا؟

اتوار، 3 اگست، 2014

خسارہ

راستی، راستائی اور راستینی تلاش کرنے والوں کے لیے یہ ایک پُر آشوب زمانہ ہے۔ دلوں میں تاریکی پھیلی ہوئی ہے۔ دلیلوں پر درہمی کی اُفتاد پڑی ہے اور دانش پر دیوانگی کے دورے پڑ رہے ہیں۔ نیکی اور بدی اس طرح کبھی خلط ملط نہ ہوئی تھیں۔ اِدھر یا اُدھر، جدھر بھی دیکھو، ایک ہی سا حال ہے۔ تیرہ درونی نے اپنی دستاویز درست کی ہے اور کجی، کج رائی اور کج روی کا دستور جاری کیا گیا ہے۔ جو سمجھانے والے تھے، وہ اپنے افادات کی مجلسوں میں بُرائی سمجھا رہے ہیں۔ بُرائی سوچی جا رہی ہے اور بُرا چاہا جا رہا ہے۔ خیال اور مقال کی فضا اس قدر زہرناک کبھی نہ ہوئی تھی۔ انسانی رشتے اتنے کم زور کبھی نہ پڑے تھے۔

ایک اور فتنہ برپا ہوا ہے، وہ ادھوری سچائیوں کا فتنہ ہے۔ اس نے انسانیت کی صورت بگاڑ کر رکھ دی ہے۔ ایک آنکھ، ایک کان، اور ایک ٹانگ کی انسانیت زندگی کے حُسنِ تناسب کا نادر نمونہ ٹھہری ہے۔ یہی وہ انسانیت ہے جس کے باعث اس دور میں ہماری تاریخ کے سب سے بدترین واقعات ظہور میں آئے ہیں۔ گمان گزرتا ہے کہ یہ انسانوں کی نہیں، نسناسوں کی دنیا ہے اور ہم سب نسناس ہیں، جسے دیکھو وہ غیر انسانی لہجے میں بولتا ہوا سُنائی دیتا ہے۔

سماعتوں پر شیطانی شطحیات نے قبضہ جما لیا ہے۔ یہاں جو بھی کان دھر کر سُن رہا ہے، وہ کانوں کے گناہ کا مرتکب ہو رہا ہے۔ سو، چاہیے کہ ایسے میں نیک سماعتیں اعتزال اختیار کریں۔ اپنی نیتوں کی نیکی پر سختی سے قائم رہو اور اس کی ہر حال میں حفاظت کرو کہ تمہارے پاس یہی ایک متاع باقی رہ گئی ہے اور یہی تمہاری سب سے قیمتی متاع بھی ہے۔
نفرتوں کی گرم بازاری اور محبتوں کی قحط سالی میں دُکھی انسانیت کے دُکھ اور بھی بڑھ گئے ہیں۔ اس بیمار کے تیمارداروں اور غم گساروں کی تعداد آہستہ آہستہ کم ہوتی جا رہی ہے۔ اچھائی اور برائی میں ایک عجیب معاملت ہوئی ہے۔ اور وہ یہ کہ انہوں نے اپنے ناموں کا آپس میں تبادلہ کر لیا ہے۔ اب ہر چیز اپنی ضد نظر آتی ہے۔ علم، جہل پر ریجھ گیا تھا اور جہل، علم کے خطاب پر بُری طرح لوٹ پوٹ تھا۔ سو، دونوں ہی نے ایثار سے کام لیا۔

انسان کو اس دور میں وہ وہ منفعتیں حاصل ہوئی ہیں جن پر ہر دور کا انسان رشک کرے۔ پر اس دور کا خسارہ بھی اس قدر ہی شدید ہے اور وہ یہ کہ انسانوں کے اس انبوہ میں خود انسان ناپید ہوگیا ہے۔ جس مزاج اور جس قماش کی دنیا میں ہم رہتے ہیں، اس کا حال تو یہی ہے اور یہی ہونا بھی تھا۔ کوئلے کی کمائی کالک کے سوا اور کیا ہے؟ اندرائن کے پیڑ سے کیا کبھی انگور کے خوشے بھی توڑے گئے ہیں؟

عالمی ڈائجسٹ، نومبر1971
(یہی انشائیہ سسپنس اگست 2001 میں "بڑا خسارہ" کے عنوان سے شائع ہوا۔)

ہفتہ، 2 اگست، 2014

اعتماد

میں کوئی اور رائے رکھتا ہوں اور تم کوئی اور رائے رکھتے ہو۔ میں کسی اور جماعت کے ساتھ ہوں اور تم کسی اور جماعت کے ساتھ ہو۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جسے کبھی برا سمجھا گیا ہو یا برا سمجھا جانا چاہیے، یہ تو سچ کو تلاش کرنے کا ایک طور ہے، میں سچ کود ائیں طرف تلاش کرتا ہوں اور تم سچ کو بائیں طرف تلاش کرتے ہو، پر یہاں کا جو طور ہے، جو طور رہا ہے، وہ عجب کچھ ہے۔

یہاں ایک دوسرے سے جدا رائے رکھنے کا مطلب ہے ایک دوسرے کا دشمن ہونا۔ ایک دوسرے پر کسی بھی معاملے میں اعتماد نہ کرنا۔ کیا عقل و ہوش کی سلامتی اور سیاست کے یہی معنی ہیں۔ ایک جماعت کسی بھی معاملے میں دوسری جماعت پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو ملک کا دشمن اور قوم کا غدار خیال کرتے ہیں۔ ان دو لفظوں کے سوا اپنے حریف کے لیے ہمارے پاس اور کوئی لفظ نہیں ہے۔

بات یہ ہے کہ ہم میں سے ہر گروہ یہ گمان رکھتا ہے کہ اس کائنات کی ساری سچائیاں اور اچھائیاں اس کی جیبوں میں جمع ہو گئی ہیں۔ وہ اس زمین کا سب سے منتخب، محبوب اور برگزیدہ گروہ ہے۔ اور تاریخ نے آج تک جو سفر طے کیا ہے، اس کی غرض اور غایت ہی یہ تھی کہ اس منتخب، محبوب اور برگزیدہ گروہ کو اس دور کے حوالے کر سکے اور بس۔

تم کون ہو اور ہم کون ہیں؟ اور ہمارے گمان، ہمارے خیال اور ہماری رائے کی بھلا حقیقت ہی کیا ہے۔ تمہارے ذہن کے کشکول میں آخر وہ کون سی دلیل اور وہ کون سی حجت ہے جس کے توڑ کے لیے ہمارے ذہن کے کشکول میں کوئی دلیل اور کوئی حجت موجود نہ ہو اور ہمارے ذہن کے کشکول میں آخر وہ کون سی دلیل اور وہ کون سی حجت ہے جس کے توڑ کے لیے تمہارے ذہن کے کشکول میں کوئی دلیل اور کوئی حجت موجود نہ ہو۔

کیا ہمارے باطن سے یا تمہارے باطن سے الہام کا کوئی رشتہ پایا جاتا ہے؟ ہم میں سے آخر وہ کون ہے جو یہ دعویٰ کر سکے کہ ہم نے جب بھی سانس لیا تو سچ میں سانس لیا۔ ہم نے جب بھی سوچا تو سچ میں سوچا۔ سچ کےساتھ سوچا، سچ کے لیے سوچا اور اول سے آخر تک سچ ہی سوچا؟

سوچو اور سوچنے کی نیک عادت ڈالو کہ دوسرے جو کچھ سوچ رہے ہیں، وہ بھی سچ ہو سکتا ہے، نہ تم آسمان سے اترے ہو اور نہ تمہارے حریف۔ تمہیں وجود میں لانے کے لیے زمین اور آسمان نے اتنی ہی مشقت اٹھائی ہے جتنی مشقت، تمہارے حریفوں کو وجود میں لانے کے لیے اٹھائی ہے۔

ایسا کیوں ہے کہ تم کسی بھی رائے اور کسی بھی خیال کے بارے میں اپنے سوا کسی دوسرے پر اعتماد کرنے کی کوئی بھی اہلیت نہیں رکھتے؟ ایسا کیوں ہے کہ سچ اور سچائی کو تم نے بس اپنی ہی دستاویز کا ایک گوشوارہ سمجھ رکھا ہے؟ اور میرا یہی سوال تمہارے حریف سے بھی ہے۔

ایک ہی حق تو ہے جو تم بھی مانگتے ہو اور تمہارا حریف بھی مانگتا ہے۔ اور وہ حق ہے رائے رکھنے اور اسے ظاہر کرنے کا۔ تم وہ رائے رکھو جو تمہیں درست معلوم ہوتی ہو اور دوسروں کو وہ رائے رکھنے کی آسانی فراہم کرو جو انہیں درست معلوم ہوتی ہو۔

اور تم دونوں اس معاملے میں ایک دوسرے پر اعتماد کرو کہ جو کچھ دوسرا کہہ رہا ہے وہ اس کی رائے ہے، ریاکاری نہیں اور جو کچھ تم کہہ رہے ہو وہ تمہاری رائے ہے رُوبا نہیں۔

اگر یہ اعتماد باقی نہ رکھا گیا اور اس بارے میں بھی بے اعتمادی کو کام میں لایا گیا تو بولو اور بتاؤ کہ پھر اس بات کا فیصلہ روئے زمین پر آخر کون کرے گا کہ جو تمہارا خیال ہے، وہ تو خیال ہے اور جو دوسرے کا خیال ہے وہ نیت کی خرابی اور خلل ہے۔ ایک دوسرے کے بارے میں اعتماد کو کام میں لاؤ اور پھر اپنے اپنے دعوے اور اپنی اپنی دلیلوں کی بساط بچھاؤ۔

بحث ہونا چاہیے اور جاری رہنا چاہیے۔ شکوہ کس بات کا ہے؟ شکوہ ہی اس بات کا ہے کہ یہاں بحث نہیں ہوتی۔ ہم لوگ ابھی تک بحث کے خوگر نہیں ہوئے ہیں۔ ہم تو بدگوئی اور بدبحثی کی عادت میں مبتلا ہیں۔

بحث، ذہن کی دانش مندانہ اور دانش جویانہ حالت کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اور ہم ذہن کی دانش مندانہ اور دانش جویانہ حالت سے محروم ہیں، ہم جب تک ذہن کی اس حالت سے محروم رہیں گے، اس وقت تک ہمارے اور سچائی کی خواہش کے درمیان کوئی رشتہ قائم نہیں ہو سکتا۔

آؤ ایک دوسرے پر اعتماد کر کے اپنے اور سچائی کی خواہش کے درمیان وہ رشتہ قائم کریں جو شائستگی کی پہچان ہے اور بحث شروع کریں، وہ بحث جو سچائی تک پہنچاتی ہے۔

(سسپنس ڈائجسٹ، دسمبر ۱۹۸۹)

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔