بدھ، 29 اکتوبر، 2014

یا رب مری حیات سے غم کا اثر نہ جائے

یا رب مری حیات سے غم کا اثر نہ جائے
جب تک کسی کی زلف پریشاں سنور نہ جائے

وہ آنکھ کیا جو عارض و رخ پر ٹھہر نہ جائے
وہ جلوہ کیا جو دیدہ و دل میں اتر نہ جائے

میرے جنوں کو زلف کے سائے سے دور رکھ
رستے میں چھاؤں پا کے مسافر ٹھہر نہ جائے

میں آج گلستاں میں بلا لوں بہار کو
لیکن یہ چاہتا ہوں خزاں روٹھ کر نہ جائے

پیدا ہوئے ہیں اب تو مسیحا نئے نئے
بیمار اپنی موت سے پہلے ہی مر نہ جائے

کر لی ہے توبہ اس لیے واعظ کے سامنے
الزام تشنگی مرے ساقی کے سر نہ جائے

ساقی پلا شراب مگر یہ رہے خیال
آلام روزگار کا چہرہ اتر نہ جائے

میں اس کے سامنے سے گزرتا ہوں اس لیے
ترک تعلقات کا احساس مر نہ جائے

مسرور دید حسن ہے اس واسطے فنؔا
دنیا کے عیب پر کبھی میری نظر نہ جائے

اتوار، 26 اکتوبر، 2014

مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں جینے کی تمنا کون کرے

مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں  جینے کی تمنا کون کرے
یہ دنیا ہو یا وہ دنیا  اب خواہش دنیا کون کرے

جب کشتی ثابت وسالم تھی، ساحل کی تمنا کس کو تھی
اب ایسی شکستہ کشتی پر ساحل کی تمنا کون کرے

جو آگ لگائی تھی تم نے  اس کو تو بجھایا اشکوں سے
جو اشکوں نے بھڑکائی ہے  اس آگ کو ٹھنڈا کون کرے

دنیا نے ہمیں چھوڑا جذبؔی  ہم چھوڑ نہ دیں کیوں دنیا کو
دنیا کو سمجھ کر بیٹھے ہیں  اب دنیا دنیا کون کرے

جمعرات، 23 اکتوبر، 2014

کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا

کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا
کہیں زمیں کہیں آسماں نہیں ملتا

تمام شہر میں ایسا نہیں خلوص نہ ہو
جہاں امید ہو اس کی وہاں نہیں ملتا

کہاں چراغ جلائیں کہاں گلاب رکھیں
چھتیں تو ملتی ہیں لیکن مکاں نہیں ملتا

یہ کیا عذاب ہے سب اپنے آپ میں گم ہیں
زباں ملی ہے مگر ہم زباں نہیں ملتا

چراغ جلتے ہیں بینائی بجھنے لگتی ہے
خود اپنے گھر میں ہی گھر کا نشاں نہیں ملتا

بدھ، 22 اکتوبر، 2014

دیر لگی آنے میں تم کو شکر ہے پھر بھی آئے تو

دیر لگی آنے میں تم کو شکر ہے پھر بھی آئے تو
آس نے دل کا ساتھ نہ چھوڑا ویسے ہم گھبرائے تو

شفق دھنک مہتاب گھٹائیں تارے نغمے بجلی پھول
اس دامن میں کیا کیا کچھ ہے دامن ہاتھ میں آئے تو

چاہت کے بدلے میں ہم تو بیچ د یں اپنی مرضی تک
کوئی ملے تو دل کا گاہک کوئی ہمیں اپنائے تو

سنی سنائی بات نہیں یہ اپنے اوپر بیتی ہے
پھول نکلتے ہیں شعلوں سے چاہت آگ لگائے تو

جھوٹ ہے سب تاریخ ہمیشہ اپنے کو دہراتی ہے
اچھا میرا خوابِ جوانی تھوڑا سا دہرائے تو

نادانی اور مجبوری میں یارو کچھ تو فرق کرو
اک بےبس انسان کرے کیا ٹوٹ کے دل آجائے تو

بدھ، 15 اکتوبر، 2014

دیواروں سے مل کر رونا اچھا لگتا ہے

یہ غزل بہت سے گلوکاروں نے گائی ہے۔ اور زیادہ تر نے "دیواروں سے باتیں کرنا اچھا لگتا ہے" کر کے گائی ہے۔ جبکہ اصل شعر "دیواروں سے ملکر رونا اچھا لگتا ہے"۔ اور دوسری بات کہ چند احباب نے انٹرنیٹ کی دنیا میں اس کے چند اشعار (خاص کر مقطع) کو ناصر کاظمی سے منسوب کر رکھا ہے جبکہ یہ اصل غزل جناب قیصرالجعفری صاحب کی ہے۔ 

دیواروں سے مل کر رونا اچھا لگتا ہے
ہم بھی پاگل ہو جائیں گے ایسا لگتا ہے

کتنے دنوں کے پیاسے ہوں گے یارو سوچو تو
شبنم کا قطرہ بھی جن کو دریا لگتا ہے

آنکھوں کو بھی لے ڈوبا یہ دل کا پاگل پن
آتے جاتے جو ملتا ہے تم سا لگتا ہے

اس بستی میں کون ہمارے آنسو پونچھے گا
جو ملتا ہے اس کا دامن بھیگا لگتا ہے

دنیا بھر کی یادیں ہم سے ملنے آتی ہیں
شام ڈھلے اس سونے گھر میں میلہ لگتا ہے

کس کو پتھر ماروں قیصؔر  کون پرایا ہے
شیش محل میں اک اک چہرہ اپنا لگتا ہے

منگل، 14 اکتوبر، 2014

اب کے سال پونم میں جب تو آئے گی ملنے

اب کے سال پونم میں جب تو آئے گی ملنے
ہم نے سوچ رکھا ہے رات یوں گزاریں گے
دھڑکنیں بچھا دیں گے، شوخ ترے قدموں میں
ہم نگاہوں سے تیری، آرتی اتاریں گے

تو کہ آج قاتل ہے، پھر بھی راحتِ دل ہے
زہر کی ندی ہے تو، پھر بھی قیمتی ہے تو
پَست حوصلے والے، تیرا ساتھ کیا دیں گے!
زندگی اِدھر آجا! ہم تجھے گزاریں گے!

آہنی کلیجے کو، زخم کی ضرورت ہے
انگلیوں سے جو ٹپکے، اُس لہو کی حاجت ہے
آپ زلفِ جاناں کے خم سنواریے صاحب!
زندگی کی زلفوں کو آپ کیا سنواریں گے!

ہم تو وقت ہیں، پل ہیں، تیز گام گھڑیاں ہیں
بے قرار لمحے ہیں، بے تھکان صدیاں ہیں
کوئی ساتھ میں اپنے، آئے یا نہیں آئے
جو ملے گا رستے میں،ہم اسے پکاریں گے

جب میرے راستے میں کوئی میکدا پڑا

جب میرے راستے میں کوئی میکدا پڑا
مجھ کو خود اپنے غم کی طرف دیکھنا پڑا

معلوم اب ہوئی تری بیگانگی کی قدر
اپنوں کے التفات سے جب واسطا پڑا
ْ
اک بادہ کش نے چھین لیا بڑھ کے جام مَے
ساقی سمجھ رہا تھا سبھی کو گرا پڑا

ترکِ تعلقات کو اک لمحہ چاہیے 
لیکن تما م عمر مجھے سوچنا پڑا

یوں جگمگا رہا ہے مرا نقش پا فناؔ
جیسے ہو راستے میں کوئی آئینا پڑا

جمعہ، 3 اکتوبر، 2014

گلیلی

اج میں تکیا اکھاں نال،
وچ گودڑی لکیا لال ۔
سر دے اتے پھٹا پرولا،
ٹھبی جتی گنڈھیا جھولا ۔
چھجے کپڑے ہوئے لنگارے،
وچوں پنڈا لشکاں مارے ۔
حسن نہ جاوے رکھیا تاڑ،
نکل آؤندا کپڑے پاڑ !

نہیں ایہہ انگر، نہیں لنگارے
ایہہ تاں پھٹّ نصیباں مارے ۔
یا پھر لٹن مارن ڈاکے،
وڑی غریبی سنھاں لا کے ۔
حسن اوس دا میں کی آکھاں،
تکن نال پیندیاں لاساں ۔
دھون گوری دی ایسی پھبے،
آؤندا جاندا ساہ پیا لبھے ۔
گورا گل، گلیاں دی گانی،
اک تھاں وسدے اگّ تے پانی ۔
نین گوری دے باتاں پاون،
مستی دے ساگر چھلکاون،
یا ایہہ بند اوس نے کیتے،
کجیاں وچ دریا حسن دے ۔
وال، دوپیہرے راتاں پئیاں،
تکّ تکّ کتے لیندے جھئیاں ۔
موہن، کھجھ نہ ایہناں اتے،
سدا رات نوں بھونکن کتے ۔

واہ غریبی وارے تیرے !
وسدے رہن چوبارے تیرے !

(گلیلی یا گلیلیانیاں اوہ ہن جو سوئیاں، کندھوئیاں، چرخے دیاں چرمکھاں ویچدیاں ہن ۔)
اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔