بدھ، 23 دسمبر، 2015

گل ز رخت آموخته نازك بدني را

گل از رخت آموخته نازك بدني را
بلبل ز تو آموخته شيرين سخني را

هر كس كه لب لعل ترا ديد، به خود گفت
حقا كه چه خوش كنده عقيق يمني را

خياط ازل دوخته بر قامت زيبات
بر قد تو اين جامه ي سبز چمني را

در عشقِ تو دندان شکستند به الفت
تو نامه رسانید اویس قرني را

از جامؔی بيچاره رسانيدہ سلامی
بر درگه دربار رسول مدني را​
 

مولانا عبدالرحمن جامؔی

ہفتہ، 19 دسمبر، 2015

وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی وعدہ یعنی نباہ کا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہ جو لطف مجھ پہ تھے پیش تر، وہ کرم کہ تھا مرے حال پر
مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہ نئے گلے، وہ شکایتیں، وہ مزے مزے کی حکایتیں
وہ ہر ایک بات پہ روٹھنا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

کبھی بیٹھے سب میں جو رُوبرُو، تو اشارتوں ہی سے گفتگو
وہ بیانِ شوق کا برملا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

ہوئے اتفاق سے گر بہم، تو وفا جتانے کو دم بہ دم
گلہء ملامتِ اقربا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

کوئی ایسی بات اگر ہوئی کہ تمہارے جی کو بری لگی
تو بیاں سے پہلے ہی بھولنا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی، کبھی ہم سے تم سے بھی راہ تھی
کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

سنو ذکر ہے کئی سال کا کہ کیا اِک آپ نے وعدہ تھا
سو نباہنے کا تو ذکر کیا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

کہا میں نے بات وہ کوٹھے کی مِرے دل سے صاف اتر گئی
تَو کہا کہ جانے مِری بلا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہ بگڑنا وصل کی رات کا، وہ نہ ماننا کسی بات کا
وہ نہیں نہیں کی ہر آن ادا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

جسے آپ گنتے تھے آشنا، جسے آپ کہتے تھے با وفا
میں وہی ہوں مومنِ مبتلا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

بدھ، 9 دسمبر، 2015

کچھ یوں بھی سوچا از قلم واصف

سامان گاڑی کی ڈگی میں رکھ دواور فرنٹ سیٹ پر بیٹھ جاؤ۔ میں نے عارف سے کہااور خود ڈرائیونگ سیٹ پر جا بیٹھا۔ عارف(جو کہ فقط دو دن قبل گھر کے کام کاج کے لیے رکھا ملازم تھا) سامان ڈگی میں رکھ کر میرے ساتھ آبیٹھا- عارف کا تعلق تو سکردو سے تھا لیکن فکر معاش اسے کھینچ کر جڑواں شہروں تک لے آئی تھی۔اور ایک مسافر خانہ اس کے سر چھپانے کی جا ٹھہرا تھا۔اور ہمارے ایک رشتہ دار کے گھر کام کرنے والی خاتون (جو کہ خود بھی سکردو سے تعلق رکھتی تھی) کے حوالہ سے ہمارے ہاں گھریلو کام کاج کی غرض سے آیا تھا-

  دودن قبل جب عارف ہمارے ہاں آیا تھا تواس سے پہلی ملاقات میں جب ہم نے اس سے اس کے کام کاج  تجربے کے بارے میں دریافت کیا تھا تو اس کے بقول اس کو گھر کے تمام کاموں پر عبور تھا اور وہ پہلے بھی اسلام آباد میں ایک جگہ بطور ہیلپر کام کر چکا تھا جہاں کچن کے تمام کام(کھانا پکانے کے علاوہ)، گھر کی صفائی، ڈسٹنگ، چائے بنانا اور باقی چھوٹے موٹے کام کرنا اس کا معمول تھا- اور ہماری ضرورت ایسے ہی تمام کاموں کے لئے کوئی ہیلپر رکھنے کی تھی اسی وجہ سے ہم نے اس کو اپنے ہاں ملازمت پر رکھ لیا تھا- مگرصرف ایک ہی گھنٹے میں یہ بات میرے گھر والوں پر عیاں ہو گئی کے عارف جھوٹ بول رہا ہے اور اس کو کوئی کام نہیں آتا- مگرمیں نے بزور اصرار اپنے گھر والوں سے اس کو موقع فراہم کرنے کی درخواست کی- مگر صورت حال سدھرتی نظر نہیں آ رہی تھی- عارف سے کوئی ایک کام بھی  نہیں  ہوہا تھا- گھر والے اس معاملے پر برہم تھے مگر میں اس سب صورت حال کی اصل وجہ جاننا چاہتا تھا-اورگھر سے بار بار فون پر عارف کو کام سے نکالنے کی خواہش کے باوجود میں نے گھر والوں کوایک دو دن صبر کرنے کا کہا  اور یوں دو دن گزر گئے-  اگلے دن بھی یہی ماجرا ہوا اور جب عارف سے کام نا بن پڑا تو میں نے سوچا کہ میں شام کو اس معاملے کو حل کرتا ہوں- شام کو گھر پہنچ کر میں سیدھا عارف کے کمرے میں چلا گیا اور ساری بات معلوم کی- عارف نے اس بات کا اقرار کیا کے اس کو کچھ زیادہ کام پر عبور نہیں  ہے - میں نے اس کو اپنی مجبوری بتائی کہ ہم دونوں (میں اور میریاہلیہ ) ورکنگ ہیں اور والدہ  ضعیف ہیں اس لئے ہمیں ایک ماہر کام کرنے والے کی ضرورت ہے اور ہم تمھیں مزید  نہیں  رکھ سکتے- عارف اس بات پر راضی تھا اور کہنے لگا جی آپ کا  مسئلہ درست ہے آپ کے بچے چھوٹے ہیں بہتر ہو گا کہ آپ کو کوئی ماہر کام کرنے والا مل جائے- عارف میری مجبوری سمجھ رہا تھا اور کچھ مزید باتیں کرنے کے بعد میں نے اس سے کہا کہ جاؤ اپنا سامان باندھ لو میں تمھیں مسافر خانہ تک چھوڑ  آتا ہوں اور دو دن کے کام کا جو حساب بنتا ہے وہ بھی دے دیتا ہوں- عارف نے کہا جی ٹھیک ہے اور اپنا سامان اکٹھا کرنے چلا گیا-

  یہ لمحہ میرے لئے بہت تکلیف دہ تھا، کیونکہ جو وجہ میں عارف کے اس تمام رویہ سے اخذ  کر پایا تھا وہ اس کی ڈیڑھ سالہ بیٹی اور اس کی بیوی تھیں جو کہ سکردو میں ہی مقیم تھیں جن سی ملنے عارف سال میں ایک ہی دفعہ جا پاتا تھا کیونکہ سکردو آنے جانے کا خرچہ ہی تین سے چار ہزار روپے تھا اور عارف  محض  آٹھ سے دس ہزار روپے ماہوار کما پاتا تھا جس میں سے عارف ایک سے دو ہزار روپے سگریٹ نوشی پر خرچ کر دیتا تھا اور جو کچھ بچتا تھا وہ عارف گھر بھیج دیتا تھا- یہ تمام باتیں عارف سے معمولی بات چیت میں اس نے مجھے بتائی تھیں-

  میں عارف کو گاڑی میں لیے مسافر خانے کی طرف جا رہا تھا اور وہ چند کلو میٹر کا سفر میرے لیئے کسی لا متناہی سفر سے کم نہ تھا- کئی کلو میٹر جانے کے بعد بھی مجھے یوں لگ رہا تھا کہ جیسے چند قدم ہی چلا ہوں- میں دل ہی دل میں عارف کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ اس کی بچی کا کیا ہو گا، خود سے سوال کر رہا تھا کی کہیں میں اس کے ساتھ نا انصافی تو  نہیں  کر رہا- یہ کھانا کہاں سے کھائے گااور ایسے ہی بے شمار سوال ذہن میں گردش کر رہے تھے- بیچ بیچ میں،میں عارف سے بھی باتیں کر رہا تھا یہ جاننے کے لئے کی کہیں وہ دل برداشتہ تو  نہیں - اس کی منزل قریب آ رہی تھی اور میرا دل بھاری ہو رہا تھا- میں نے عارف کو مسافر خانے کا پاس اتار دیا، اور جوکچھ مالی ودیگر امداد میں اس کی کر سکتا تھا وہ کر دی- خدا حافظ  کہہ  کرمیں وہاں سے چل پڑا اوربے شمار باتوں نے میری سوچ کا  گھیراؤ کر لیا-

  چند ماہ قبل بہت سی کمپنیاں خام تیل کے بحران کی وجہ سے متاثر ہوئی تھیں اور بہت سے ملازمین کو اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑا تھا اور میرے کئی دوست احباب بھی اس عمل سے اثر انداز ہوئے تھے- اب عارف کو ملازمت سے نکالنے کے بعد میں ملازمت سے نکالے جانے والے عمل کوبہت زیادہ محسوس کر رہا تھا- مجھے یہ احساس ہو رہا تھا کی کسی کو ملازمت سے نکالنا کسی کو ملازمت دینے سے زیادہ مشکل کام ہے- میں یہ سوچ رہا تھا کہ کیا جب کمپنیاں لوگوں کو ملازمت سے نکالتی ہیں تو کیا وہ بھی کچھ ایسا سوچتی ہیں جیسا میں عارف کو رخصت کرتے وقت سوچ رہا تھا- کرتی بھی ہیں اور نہیں بھی، میرے لا شعور سے جواب آ رہا تھا- یہ جواب ضرور کچھ حقائق پر  منحصر تھا کیونکہ میں نے کچھ لوگ ایسے دیکھے تھے جن پر ملازمت سے رخصت کے وقت خصوصی شفقت برسائی گئی تھی اور کچھ ایسے بھی تھے جو اپنے حق سے بھی محروم تھے- اب میں نے مزید سوچا کہ ایسا کوئی کیونکر کرے گا؟ یا کیا وجہ تھی جو مجھے عارف سے فقط دو دن کے رشتے( وہ بھی جس میں میری اس سے ملاقات چند گھنٹوں سے زیادہ نہ تھی ) کے باوجود مجھے اس کی تکلیف محسوس ہو رہی تھی- مجھے رہ رہ کر اس کے گھر والوں کا خیال آ رہا تھا-کیا فرق تھا مجھ میں اور ایک کمپنی کے مالک میں جو کھڑے کھڑے سو سو لوگوں کو ملازمت سے نکال دیتا ہے- کافی غور و فکر کے بعد مجھے اس کی وجہ سمجھ آ گئی-وجہ ہے ملازم اور مالک کے درمیان تعلق- گھریلو ملازمین سے روز کا ٹاکرا ہوتا ہے ان کی اچھی بری عادات سے واقفیت ہوتی ہے ملازمین کی گھریلوضروریات سے آگاہی ہوتی ہے- اپنے سامنے کام کرتا دیکھ کرملازم کی تھکن کا احساس ہوتا ہے- جبکہ کارپوریٹ کلچر نے دیگر اصطلاحات متعارف کروا کر انسان کا انسان سے جو رشتہ ہونا چاہئے اس کو پس پردہ ڈال دیا ہے – مختلف نام نہاد ڈیپارٹمنٹ جو انسانوں کے حقوق کے علم بردار ہوتے ہیں وہ اپنی عیش  و عشرت اورمالکان کی نظر کرم حاصل کرنے کی وجہ سے مالکان کو  حقائق سے دور رکھتے ہیں- اور اس امر کو جدید اصطلاح میں ڈیلیگیشن آف پاور کا نام دیا جاتا ہے-   کسی کمپنی کے مالک کو اس کی کمپنی میں کام کرنے والے دس سے پندرہ لوگوں کے علاوہ کسی کا نام تک معلوم نہیں ہوتا گھریلو مسائل سے آگاہی تو بہت دور کی بات ہے –  یوں جب کسی کی ملازمت ختم کرنے کا وقت آتا ہے تو درد صرف اسی کے لئے محسوس ہوتا ہے جس سے رابطہ ہو، جس کے حال احوال سے واقفیت ہو-جس کی کمائی اور اخراجات سے آگاہی ہو- اگر مجھے عارف کے یہ سب حقائق معلوم نہ ہوتے تو شائد مجھے بھی اس سے ہمدردی نہ ہوتی-

انسان کے اندر جو اللہ تعالی نے  انسانیت  سے ہمدردی انسان کے اصل میں رکھی ہے اس کودیگر سوشل نیٹورکنگ سسٹم و دیگر ادارتی سسٹم  متعارف کروا کر دھوکا دیا جا رہا ہے- اگر کسی انسان کو دوسرےانسان کے مسائل سے آگاہے ہو تو وہ تلخ فیصلے انتہائی مجبور ہو کر ہی کر سکتا ہے-ہمیں چاہئے کہ اپنے آس پاس موجود لوگوں سے ہمدردی کریں جو روزمرہ زندگی میں ہمارے بیشتر مسائل حل کرتے ہیں بلا واسطہ یا بلواسطہ ہمیں ان کا احساس ہونا چاہئے اور ان کے مسائل سے آگاہی ہماری ذمہ داری ہونی چاہئے-

منگل، 8 دسمبر، 2015

یہ زندگی

یہ زندگی
آج جو تمہارے
بدن کی چھوٹی بڑی نسوں میں
مچل رہی ہے
تمہارے پیروں سے چل رہی ہے
تمہاری آواز میں گلے سے نکل رہی ہے
تمہارے لفظوں میں ڈھل رہی ہے

یہ زندگی
جانے کتنی صدیوں سے
یوں ہی شکلیں بدل رہی ہے

بدلتی شکلوں
بدلتے جسموں میں
چلتے پھرتے یہ اک سہارا
جو اس گھڑی
نام ہے تمہارا
اسی سے ساری چہل پہل ہے
اسی سے روشن ہے ہر نظارہ

ستارے توڑو یا گھر بساؤ
قلم اٹھاؤ یا سر جھکاؤ
تمہاری آنکھوں کی روشنی تک
ہے کھیل سارا

یہ کھیل ہو گا نہیں دوبارہ
یہ کھیل ہو گا نہیں دوبارہ

جمعرات، 3 دسمبر، 2015

اکثر شبِ تنہائی میں (نادر کاکوروی)

اکثر شبِ تنہائی میں
کچھ دیر پہلے نیند سے
گزری ہوئی دلچسپیاں 
بیتے ہوئے دن عیش کے
بنتے ہیں شمعِ ذندگی 
اور ڈالتے ہیں روشنی

میرے دلِ صد چاک پر

وہ بچپن اوروہ سادگی
وہ رونا وہ ہنسنا کبھی
پھر وہ جوانی کے مزے
وہ دل لگی وہ قہقہے
وہ عشق وہ عہدِ و فا
وہ وعدہ اور وہ شکریہ
وہ لذتِ بزمِ طرب
یاد آتے ہیں ایک ایک سب

دل کا کنول جو روز و شب 
رہتا شگفتہ تھا سو اب
اسکا یہ ابتر حال ہے
اک سبزۂ پا مال ہے
اک پھو ل کُملایا ہوا
ٹوٹا ہوا بکھرا ہوا

روندا پڑا ہے خاک پر

یوں ہی شبِ تنہائی میں
کچھ دیر پہلے نیند سے
گزری ہوئی ناکامیاں
بیتے ہوئے دن رنج کے
بنتے ہیں شمعِ بےکسی
اور ڈالتے ہیں روشنی

ان حسرتوں کی قبر پر

جوآرزوئیں پہلے تھیں 
پھر غم سے حسرت بن گئیں
غم دو ستو ں کی فوت کا
ان کی جواناں موت کا

لے دیکھ شیشسے میں مرے 
ان حسرتوں کا خون ہے
جو گرد شِ ایام سے
جو قسمتِ ناکام سے
یا عیشِ غمِ انجام سے
مرگِ بتِ گلفام سے
خود میرے غم میں مر گئیں
کس طرح پاؤں میں حزیں

قابو دلِ بےصبر پر

جب آہ ان احباب کو
میں یاد کر اٹھتا ہوں جو
یوں مجھ سے پہلے اٹھ گئے
جس طرح طائر باغ کے
یا جیسے پھول اور پتیاں
گر جائیں سب قبل از خزاں

اور خشک رہ جائے شجر

اس وقت تنہائی مری
بن کر مجسم بےکسی
کر دیتی ہے پیشِ نظر
ہو حق سااک ویران گھر
ویراں جس کو چھوڑ کے
سب رہنے والے چل بسے
ٹو ٹے کواڑ اور کھڑ کیاں
چھت کے ٹپکنے کے نشاں
پرنالے ہیں روزن نہیں
یہ ہال ہے، آ نگن نہیں
پردے نہیں، چلمن نہیں
اک شمع تک روشن نہیں
میرے سوا جس میں کوئی 
جھا نکے نہ بھولے سے کبھی
وہ خانۂ خالی ہے دل
پو چھے نہ جس کو دیو بھی

اجڑا ہوا ویران گھر

یوں ہی شب تنہائی میں
کچھ دیر پہلے نیند سے
گزری ہوئی دلچسپیاں
بیتے ہوئے دن عیش کے
بنتے ہیں شمعِ زندگی
اور ڈالتے ہیں روشنی

میرے دل صد چاک پر

جمعرات، 12 نومبر، 2015

اے دشت آرزو مجھے منزل کی آس دے

اے دشت آرزو مجھے منزل کی آس دے
میری تھکن کو گرد سفر کا لباس دے

پروردگار تو نے سمندر تو دے دیے
اب میرے خشک ہونٹوں کو صحرا کی پیاس دے

فرصت کہاں کہ ذہن مسائل سے لڑ سکیں
اس نسل کو کتاب نہ دے اقتباس دے

آنسو نہ پی سکیں گے یہ تنہائیوں کا زہر
بخشا ہے غم مجھے تو کوئی غم شناس دے

لفظوں میں جذب ہوگیا سب زندگی کا زہر
لہجہ بچا ہے اس کو غزل کی مٹھاس دے

بدھ، 4 نومبر، 2015

تھکی ہوئی مامتا کی قیمت لگا رہے ہیں

تھکی ہوئی مامتا کی قیمت لگا رہے ہیں
امیر بیٹے دعا کی قیمت لگا رہے ہیں

میں جن کو انگلی پکڑ کے چلنا سکھا چکا ہوں
وہ آج میرے عصا کی قیمت لگا رہے ہیں

مری ضرورت نے فن کو نیلام کر دیا ہے
تو لوگ میری انا کی قیمت لگا رہے ہیں

میں آندھیوں سے مصالحت کیسے کر سکوں گا
چراغ میرے ہوا کی قیمت لگا رہے ہیں

یہاں پہ معراؔج تیرے لفظوں کی آبرو کیا
یہ لوگ بانگ درا کی قیمت لگا رہے ہیں

بدھ، 21 اکتوبر، 2015

یادیں ہیں اپنے شہر کی اہل سفر کے ساتھ

یادیں ہیں اپنے شہر کی اہل سفر کے ساتھ
صحرا میں لوگ آئےہیں دیوار و در کے ساتھ

منظر کو دیکھ کر پس منظر بھی دیکھئے
بستی نئی بسی ہے پرانے کھنڈر کے ساتھ

سائے میں جان پڑ گئی دیکھا جو غور سے
مخصوص یہ کمال ہے اہلِ نظر کے ساتھ

اک دن ملا تھا بام پہ سورج کہیں جسے
الجھے ہیں اب بھی دھوپ کے ڈورے کگر کےساتھ

اک یاد ہے کہ دامنِ دل چھوڑتی نہیں
اک بیل ہے کہ لپٹی ہوئی ہے شجر کے ساتھ

اس مرحلے کو موت بھی کہتے ہیں دوستو
اک پل میں ٹوٹ جائیں جہاں عمر بھر کے ساتھ

میری طرح یہ صبح بھی فنکار ہے شکیبؔ
لکھتی ہے آسماں پہ غزل آب زر کے ساتھ

پیر، 19 اکتوبر، 2015

یہ پیہم تلخ کامی سی رہی کیا

یہ پیہم تلخ کامی سی رہی کیا
محبت زہر کھا کر آئی تھی کیا

مجھے اب تم سے ڈر لگنے لگا ہے
تمہیں مجھ سے محبت ہو گئی کیا

شکستِ اعتمادِ ذات کے وقت
قیامت آرہی تھی، آگئی کیا

مجھے شکوہ نہیں بس پوچھنا ہے
یہ تم ہنستی ہو، اپنی ہی ہنسی کیا

ہمیں شکوہ نہیں، ایک دوسرے سے
منانا چاہیے اس پر خوشی کیا

پڑے ہیں ایک گوشے میں گماں کے
بھلا ہم کیا، ہماری زندگی کیا

میں رخصت ہو رہا ہوں، پر تمہاری
اداسی ہوگئی ہے ملتوی کیا

میں اب ہر شخص سے اکتا چکا ہوں 
فقط کچھ دوست ہیں، اور دوست بھی کیا

محبت میں ہمیں پاسِ انا تھا
بدن کی اشتہا صادق نہ تھی کیا

نہیں رشتہ سموچا زندگی سے
نجانے ہم میں ہے اپنی کمی کیا

ابھی ہونے کی باتیں ہیں، سو کر لو
ابھی تو کچھ نہیں ہونا، ابھی کیا

یہی پوچھا  کیا میں آج دن بھر
ہر  اک انسان کو روٹی ملی کیا

یہ ربطِ بےشکایت اور یہ میں
جو شے سینے میں تھی، وہ بجھ گئی کیا

بدھ، 16 ستمبر، 2015

میں نعرۂ مستانہ، میں شوخیِ رندانہ

میں نعرۂ مستانہ، میں شوخیِ رندانہ
میں تشنہ کہاں جاؤں، پی کر بھی کہاں جانا

میں طائرِ لاہوتی، میں جوہرِ ملکوتی
ناسوتی نے کب مجھ کو، اس حال میں پہچانا

میں سوز محبّت ہوں، میں ایک قیامت ہوں
میں اشکِ ندامت ہوں، میں گوہرِ یکدانہ

کس یاد کا صحرا ہوں، کس چشم کا دریا ہوں
خود طُور کا جلوہ ہوں، ہے شکل کلیمانہ

میں شمعِ فروزاں ہوں، میں آتشِ لرزاں ہوں
میں سوزشِ ہجراں ہوں، میں منزلِ پروانہ

میں حُسنِ مجسّم ہوں، میں گیسوئے برہم ہوں
میں پُھول ہوں شبنم ہوں، میں جلوۂ جانانہ

میں واصفِ بسمل ہوں، میں رونقِ محفل ہوں
اک ٹوٹا ہوا دل ہوں، میں شہر میں ویرانہ

بدھ، 26 اگست، 2015

عشق اپنے مجرموں کو پابجولاں لے چلا​

عشق اپنے مجرموں کو پابجولاں لے چلا
دار کی رسیوں کے گلوبند گردن میں پہنے ہوئے
گانے والے ہر اِک روز گاتے رہے
پائلیں بیڑیوں کی بجاتے ہوئے
ناچنے والے دھومیں مچاتے رہے
ہم نہ اس صف میں تھے اور نہ اُس صف میں تھے
راستے میں کھڑے اُن کو تکتے رہے
رشک کرتے رہے
اور چُپ چاپ آنسو بہاتے رہے
لوٹ کر آ کے دیکھا تو پھولوں کا رنگ
جو کبھی سُرخ تھا زرد ہی زرد ہے
اپنا پہلو ٹٹولا تو ایسا لگا
دل جہاں تھا وہاں درد ہی درد ہے
گلو میں کبھی طوق کا واہمہ
کبھی پاؤں میں رقصِ زنجیر
اور پھر ایک دن عشق انہیں کی طرح
رسن در گلو، پابجولاں ہمیں
اسی قافلے میں کشاں لے چلا
اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔