منگل، 27 جنوری، 2015

اے یقینوں کے خدا شہرِ گماں کس کا ہے

اے یقینوں کے خدا شہرِ گماں کس کا ہے
نور تیرا ہے چراغوں میں دھواں کس کا ہے

کیا یہ موسم ترے قانون کے پابند نہیں
موسم گل میں یہ دستور خزاں کس کا ہے

راکھ کے شہر میں ایک ایک سے میں پوچھتا ہوں
یہ جو محفوظ ہے اب تک یہ مکاں کس کا ہے

میرے ماتھے پہ تو یہ داغ نہیں تھا پہلے
آج آئینے میں ابھرا جو نشاں کس کا ہے

وہی تپتا ہوا صحرا وہی سوکھے ہوئے ہونٹ
فیصلہ کون کرے آب رواں کس کا ہے

چند رشتوں کے کھلونے ہیں جو ہم کھیلتے ہیں
ورنہ سب جانتے ہیں کون یہاں کس کا ہے

جمعرات، 22 جنوری، 2015

سر پہ کلاہِ کج دھرے زلف دراز خم بہ خم

سر پہ کلاہِ کج دھرے زلف دراز خم بہ خم
آہوئے چشم ہے غضب، ترک نگاہ ہے ستم

چاند سے منہ پہ خال دو، ایک ذقن پہ رخ پہ ایک
اس سے خرابی عرب، اس سے تباہی عجم

وہ خمِ گیسوئے دراز، دامِ خیالِ عاشقاں
ہو گئے بے طرح شکار، اب نہ رہے کہیں کے ہم

عشوۂ دل گداز وہ، ذبح کرے جو بے چھری
ناز  وہ دشمن وفا، رحم کی جس کو ہے قسم

دل جو بڑا رفیق تھا، وہ تو ہے دستِ غیر میں
رہ گئی ایک زندگی، وہ کہیں آرزو سے کم

نالۂ آتشیں و آہ، چشمِ تر و غبار دل
آتش و آب و خاک و باد، ایک جگہ ہوئے بہم

طولِ کلام بے محل، شادؔ اگرچہ عیب ہے
لکھتے ہیں کچھ اور حالِ دل ، حیف کہ رُک گیا قلم

بدھ، 7 جنوری، 2015

تیری صورت نگاہوں میں پھرتی رہے، عشق تیرا ستائے تو میں کیا کروں

اس غزل کو ٹائپ کرنے کی وجہ  اس کے اکثر اشعار کا بگڑی ہوئی حالت میں مشہور ہونا ہے۔ تابش کانپوری کی یہ غزل اصل حالت میں آپ احباب کی باذوق بصارتوں کی نذر ہے۔ 

تیری صورت نگاہوں میں پھرتی رہے، عشق تیرا ستائے تو میں کیا کروں
کوئی اتنا تو آکر بتا دے مجھے جب تری یاد آئے تو میں کیا کروں

میں نے خاک نشیمن کو بوسے دیے اوریہ  کہہ  کے بھی دل کو سمجھا لیا
آشیانہ بنانا مرا کام تھا کوئی بجلی گرائے تو میں کیا کروں

میں نے مانگی تھی یہ مسجدوں میں دعا، میں جسے چاہتا ہوں وہ مجھ کو ملے
جو مرا فرض تھا میں نے پورا کیا، اب خدا ہی نہ چاہے تو میں کیا کروں

شوق پینے کا مجھ کو زیادہ نہ تھا،ترک توبہ کا کوئی ارادہ نہ تھا
میں شرابی نہیں مجھ کو تہمت نہ دو، وہ نظر سے پلائے تو میں کیا کروں

حسن اور عشق دونوں میں تفریق ہے، پر انہیں دونوں پہ میرا ایمان ہے
گر خدا روٹھ جائے تو سجدے کروں، اور صنم روٹھ جائے تو میں کیا کروں

چشم ساقی سے پینے کو میں جو گیا، پارسائی کا میری بھرم کھل گیا
بن رہا ہے جہاں میں تماشا مرا، ہوش مجھ کو نہ آئے تو میں کیا کروں

اتوار، 4 جنوری، 2015

پھرے راہ سے وہ یہاں آتے آتے

پھرے راہ سے وہ یہاں آتے آتے
اجل مر رہی تو کہاں آتے آتے؟

نہ جانا کہ دنیا سے جاتا ہے کوئی
بہت دیر کی مہرباں آتے آتے

سنا ہے کہ آتا ہے سر نامہ بر کا
کہاں رہ گیا ارمغاں آتے آتے

یقیں ہے کہ ہو جائے آخر کو سچی
مرے منہ میں تیری زباں آتے آتے

سنانے کے قابل جو تھی بات ان کو
وہی رہ گئی درمیاں آتے آتے

مجھے یاد کرنے سے یہ مدّعا تھا
نکل جائے دم ہچکیاں آتے آتے

ابھی سن ہی کیا ہے، جو بے باکیاں ہوں
اُنہیں آئیں‌ گی شوخیاں آتے آتے

کلیجا مرے منہ کو آئے گا اِک دن
یونہی لب پر آہ و فغاں آتے آتے

چلے آتے ہیں دل میں ارمان لاکھوں 
مکاں بھر گیا مہماں آتے آتے

نتیجہ نہ نکلا، تھکے سب پیامی
وہاں جاتے جاتے یہاں آتے آتے

تمہارا ہی مشتاقِ دیدار ہو گا
گیا جان سے اک جواں آتے آتے

تری آنکھ پھرتے ہی کیسا پھرا ہے
مری راہ پر آسماں آتے آتے

پڑا ہے بڑا پیچ پھر دل لگی میں
طبیعت رکی ہے جہاں آتے آتے

مرے آشیاں کے تو تھے چار تنکے
چمن اُڑ گیا آندھیاں آتے آتے

کسی نے کچھ ان کو ابھارا تو ہوتا
نہ آتے، نہ آتے، یہاں آتے آتے

قیامت بھی آتی تھی ہمراہ اس کے
مگر رہ گئی ہم عناں آتے آتے

بنا ہے ہمیشہ یہ دل باغ و صحرا
بہار آتے آتے، خزاں آتے آتے

نہیں کھیل اے داغ ، یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔