بدھ، 26 اگست، 2015

عشق اپنے مجرموں کو پابجولاں لے چلا​

عشق اپنے مجرموں کو پابجولاں لے چلا
دار کی رسیوں کے گلوبند گردن میں پہنے ہوئے
گانے والے ہر اِک روز گاتے رہے
پائلیں بیڑیوں کی بجاتے ہوئے
ناچنے والے دھومیں مچاتے رہے
ہم نہ اس صف میں تھے اور نہ اُس صف میں تھے
راستے میں کھڑے اُن کو تکتے رہے
رشک کرتے رہے
اور چُپ چاپ آنسو بہاتے رہے
لوٹ کر آ کے دیکھا تو پھولوں کا رنگ
جو کبھی سُرخ تھا زرد ہی زرد ہے
اپنا پہلو ٹٹولا تو ایسا لگا
دل جہاں تھا وہاں درد ہی درد ہے
گلو میں کبھی طوق کا واہمہ
کبھی پاؤں میں رقصِ زنجیر
اور پھر ایک دن عشق انہیں کی طرح
رسن در گلو، پابجولاں ہمیں
اسی قافلے میں کشاں لے چلا
اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔