جمعرات، 12 نومبر، 2015

اے دشت آرزو مجھے منزل کی آس دے

اے دشت آرزو مجھے منزل کی آس دے
میری تھکن کو گرد سفر کا لباس دے

پروردگار تو نے سمندر تو دے دیے
اب میرے خشک ہونٹوں کو صحرا کی پیاس دے

فرصت کہاں کہ ذہن مسائل سے لڑ سکیں
اس نسل کو کتاب نہ دے اقتباس دے

آنسو نہ پی سکیں گے یہ تنہائیوں کا زہر
بخشا ہے غم مجھے تو کوئی غم شناس دے

لفظوں میں جذب ہوگیا سب زندگی کا زہر
لہجہ بچا ہے اس کو غزل کی مٹھاس دے

بدھ، 4 نومبر، 2015

تھکی ہوئی مامتا کی قیمت لگا رہے ہیں

تھکی ہوئی مامتا کی قیمت لگا رہے ہیں
امیر بیٹے دعا کی قیمت لگا رہے ہیں

میں جن کو انگلی پکڑ کے چلنا سکھا چکا ہوں
وہ آج میرے عصا کی قیمت لگا رہے ہیں

مری ضرورت نے فن کو نیلام کر دیا ہے
تو لوگ میری انا کی قیمت لگا رہے ہیں

میں آندھیوں سے مصالحت کیسے کر سکوں گا
چراغ میرے ہوا کی قیمت لگا رہے ہیں

یہاں پہ معراؔج تیرے لفظوں کی آبرو کیا
یہ لوگ بانگ درا کی قیمت لگا رہے ہیں
اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔