پیر، 19 دسمبر، 2016

اقتباسات از جون ایلیا۔ نسل اور زمانہ

ہر نسل اپنے زمانے میں پیدا ہوتی ہے اور اپنے ہی زمانے میں سانس لے سکتی ہے۔ ہر دور کا اپنا ایک رمز ہوتا ہے۔ جس دور میں ہم زندگی گزار رہے ہیں، اس کا اپنا ایک رمز ہے، جو اس رمز سے انکاری ہیں وہ خود بھی ہلاکت میں پڑیں گے اور اپنے ساتھ دوسروں کو بھی ہلاکت میں ڈالیں گے۔ تاریخ کے نظامِ قضا و قدر کو جھٹلانا امتوں اور ملتوں کو کو کبھی راس نہیں آیا۔ یہ وہ مسخرگی ہے جو تاریخ کی کبریائی نے کبھی برداشت نہیں کی۔
اختلاف کرنے والوں کو اس امر پر تو اتفاق کرنا ہی پڑے گا کہ ہم اپنے آبا و اجداد کے زمانے میں نہیں، اپنے زمانے میں پیدا ہوئے ہیں اور اگر ہم اپنے زمانے میں پیدا نہیں ہوئے تو پھر مژدہ ہو کہ ہم پیدا ہی نہیں ہوئے۔ پچھلی نسلیں اپنا اپنا بوجھ اٹھا کر اپنے دن گزار گئیں۔ ہمیں اپنا بوجھ اٹھانا ہے اور ان کے تجربوں سے سبق حاصل کرنا ہے۔

اقتباس از "اس دوران میں"
(عالمی ڈائجسٹ، دسمبر ۱۹۶۹)

منگل، 22 نومبر، 2016

وہی تاج ہے وہی تخت ہے وہی زہر ہے وہی جام ہے

وہی تاج ہے وہی تخت ہے وہی زہر ہے وہی جام ہے
یہ وہی خُدا کی زمین ہے یہ وہی بتوں کا نظام ہے

بڑے شوق سے میرے گھر جلا، کوئی آنچ تجھ پہ نہ آئے گی
یہ زباں کسی نے خرید لی، یہ قلم کسی کا غلام ہے

یہاں ایک بچے کے خون سے لکھا ہوا ہے اسے پڑھیں 
تیرا کیرتن ابھی پاپ ہے ابھی میرا سجدہ حرام ہے

میں یہ مانتا ہوں میرے دیے تیری آندھیوں نے بجھا دیے
مگر ایک جگنو ہواؤں میں ابھی روشنی کا امام ہے

میرے فکر و فن تیری انجمن، نہ عروج ہے نہ زوال ہے
میرے لب پہ تیرا ہی نام تھا میرے لب پہ تیرا ہی نام ہے

منگل، 25 اکتوبر، 2016

میں نے کس شوق سے اِک عمر غزل خوانی کی

میں نے کس شوق سے اِک عمر غزل خوانی کی
کتنی گہری ہیں لکیریں میری پیشانی کی

وقت ہے میرے تعاقب میں چھپا لے مجھ کو
جوئے کم آب!قسم تجھ کو ترے پانی کی

یُوں گزرتی ہے رگ و پے سے تری یاد کی لہر
جیسے زنجیر چھنک اُٹھتی ہے زندانی کی

اجنبی سے نظر آئے ترے چہرے کے نقوش
جب ترے حُسن پہ میں نے نظرثانی کی

مجھ سے کہتا ہے کوئی،آپ پریشاں نہ ہوں
مری زلفوں کو تو عادت ہے پریشانی کی

زندگی کیا ہے؟طلسمات کی وادی کا سفر
پھر بھی فرصت نہیں ملتی مجھے حیرانی کی

وہ بھی تھے ذکر بھی تھا رنگ غزل کا شبنؔم
پھر تو میں نے سر ِ محفل وہ گل افشانی کی

شبنؔم رومانی

پیر، 17 اکتوبر، 2016

گِن گِن تارے لنگھدیاں راتاں

گِن گِن تارے لنگھدیاں راتاں
سپّاں وانگر ڈنگدیاں راتاں

رانجھا تخت ہزارہ بُھلیا
بُھلیا ں نئیں پر جھنگ دیاں راتاں

اکھیاں وچ جگراتے رہندے
سُولی اُتے ٹنگدیاں راتاں

ہور کسے ول جان ناں دیون
اپنے رنگ وِچ رنگدیاں راتاں

مینوں کوئی سمجھ  ناں آوے
آئیاں کہدے ڈھنگ  دیاں راتاں

برؔی نظامی یاد نئیں مینوں
ہُن خورے کی منگدیاں راتاں

جمعہ، 14 اکتوبر، 2016

ہجر میں اُن کی ہُوا ایسا میں بیمار کہ بس

ہجر میں اُن کی ہُوا ایسا میں بیمار کہ بس
روزِ رحلت پہ کہَیں سب مِرے غمخوار کہ بس

خُوگرِ غم ہُوا اِتنا، کہ بُلانے پر بھی !
خود کہَیں مجھ سے اب اِس دہر کے آزار کہ بس

حالِ دِل کِس کو سُناؤں، کہ شُروعات ہی میں
کہہ اُٹھیں جو بھی بظاہر ہیں مِرے یار کہ بس

کیا زمانہ تھا دھڑکتے تھے بیک رنگ یہ جب
درمیاں دِل کے اُٹھی یُوں کوئی دیوار کہ بس

بارہا، در سے اُٹھانے پہ دوبارہ تھا وہیں !
میں رہا دِل سے خود اپنے ہی یُوں ناچار کہ بس

اِک خوشی کی بھی نہیں بات سُنانے کو خلِش 
گُذرے ایسے ہیں مِری زیست کے ادوار کہ بس

بدھ، 5 اکتوبر، 2016

ادا شناس ترا بےزباں نہیں ہوتا

ادا شناس ترا بےزباں نہیں ہوتا
کہے وہ کس سے کوئی نکتہ داں نہیں ہوتا

سب ایک رنگ میں ہیں مے کدے کے خورد و کلاں
یہاں تفاوت پیر و جواں نہیں ہوتا

قمار عشق میں سب کچھ گنوا دیا میں نے
امید نفع میں خوف زیاں نہیں ہوتا

سہم رہا ہوں میں اے اہل قبر بتلا دو
زمیں تلے تو کوئی آسماں نہیں ہوتا

وہ محتسب ہو کہ واعظ وہ فلسفی ہو کہ شیخ
کسی سے بند ترا راز داں نہیں ہوتا

وہ سب کے سامنے اس سادگی سے بیٹھے ہیں
کہ دل چرانے کا ان پر گماں نہیں ہوتا

جو آپ چاہیں کہ لے لیں کسی کا مفت میں دل
تو یہ معاملہ یوں مہرباں نہیں ہوتا

جہاں فریب ہو مجذوبؔ یہ تری صورت
بتوں کے عشق کا تجھ پر گماں نہیں ہوتا

خواجہ عزیز الحسن مجذؔوب

جمعہ، 16 ستمبر، 2016

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی

رخصت ہوا تو بات مری مان کر گیا
جو اُس کے پاس تھا وہ مجھے دان کر گیا

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کرگیا

دلچسپ واقعہ ہے کہ کل اِک عزیز دوست
اپنے مفاد پر مجھے قربان کرگیا

کتنی سدھر گئی ہے جدائی میں زندگی
ہاں وہ جفا سے مجھ پہ تو احسان کر گیا

خالؔد میں بات بات پہ کہتا تھا جس کو جان
وہ شخص آخرش مجھے بے جان کر گیا

جمعہ، 9 ستمبر، 2016

امیر شہر نے ہیرے سے خودکشی کر لی

جو اپنی خواہشوں میں تو نے کچھ کمی کر لی
تو پھر یہ جان کہ تو نے پیمبری کر لی

تجھے میں زندگی اپنی سمجھ رہا تھا مگر
ترے بغیر بسر میں نے زندگی کر لی

پہنچ گیا ہوں میں منزل پہ گردش دوراں
ٹھہر بھی جا کہ بہت تو نے رہبری کر لی

جو میرے گاؤں کے کھیتوں میں بھوگ اگنے لگی
مرے کسانوں نے شہروں میں نوکری کر لی

جو سچی بات تھی وہ میں نے برملا کہہ دی
یوں اپنے دوستوں سے میں نے دشمنی کر لی

مشینی عہد میں احساس زندگی بن کر
دکھی دلوں کے لیے میں نے شاعری کر لی

غریب شہر تو فاقے سے مر گیا عاؔرف
امیر شہر نے ہیرے سے خودکشی کر لی

جمعہ، 26 اگست، 2016

غزل: حادثہ حادثہ نہیں ہوتا

غزل
 
حادثہ حادثہ نہیں ہوتا
جب تلک واقعہ نہیں ہوتا
 
بس ذرا وقت پھیل جاتا ہے
فاصلہ، فاصلہ نہیں ہوتا
 
عاشقی بے سبب نہیں ہوتی
عشق بے ضابطہ نہیں ہوتا
 
راستے بھی اُداس پھرتے ہیں
جب کبھی قافلہ نہیں ہوتا
 
بات بین السطور ہوتی ہے
زیست میں حاشیہ نہیں ہوتا
 
اُس جگہ بھی خدا ہی ہوتا ہے
جس جگہ پر خدا نہیں ہوتا
 
زندگی کے نگار خانے میں
رنگ بے مدعا نہیں ہوتا
 
شمیم احمد

جمعرات، 25 اگست، 2016

سن ری شیش محل کی مہلا! آیا رمتا جوگی

سن ری شیش محل کی مہلا! آیا رمتا جوگی
اک میٹھی مسکان کے بدلے من کا منکا لو گی

 دیکھ رہا ہوں دن کو بھی آکاش پہ سبز ستارہ
یوں لگتا ہے، شام سے پہلے ٹوٹ کے بارش ہو گی

 آج بھی من تن ڈولے سن کر، سب کا تن من ڈولے
تیرے نینوں میں سنولاہٹ سی ہے، بین سنو گی

 کاہے پیڑ اور پنچھی جانیں، تجھ کو بُت مرمر کا
یونہی، مجھ سے کوئی ٹھنڈی میٹھی بات کرو گی

 اچھا، پتھر پل میں ٹھنڈی میٹھی باتیں چھوڑو
مجھ کو مری اوقات بتانے شعلہ سی بھڑکو گی

 دیکھ ذرا جوبن مہکا لے، من میں جوت جگا لے
لوٹ گئے پردیسی تو اس لہجے کو ترسو گی

 رات گئے، اجڑے کمرے کی بے کس تنہائی میں
کس سے اتنی پیار کی باتیں، ھا ھا، اسلمؔ روگی

اسلمؔ کولسری

ہفتہ، 13 اگست، 2016

یہ وطن تمہارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے

یہ وطن تمہارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے
یہ چمن تمہارا ہے، تم ہو نغمہ خواں اس کے

اس چمن کے پھولوں پر رنگ و آب تم سے ہے
اس زمیں کا ہر ذرہ آفتاب تم سے ہے
یہ فضا تمہاری ہے، بحر و بر تمہارے ہیں
کہکشاں کے یہ جالے، رہ گزر تمہارے ہیں

اس زمیں کی مٹی میں خون ہے شہیدوں کا
ارضِ پاک مرکز ہے قوم کی امیدوں کا
نظم و ضبط کو اپنا میرِ کارواں جانو
وقت کے اندھیروں میں اپنا آپ پہچانو

یہ زمیں مقدس ہے ماں کے پیار کی صورت
اس چمن میں تم سب ہو برگ و بار کی صورت
دیکھنا گنوانا مت، دولتِ یقیں لوگو
یہ وطن امانت ہے اور تم امیں لوگو

میرِ کارواں ہم تھے، روحِ کارواں تم ہو
ہم تو صرف عنواں تھے، اصل داستاں تم ہو
نفرتوں کے دروازے خود پہ بند ہی رکھنا
اس وطن کے پرچم کو سربلند ہی رکھنا

یہ وطن تمہارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے
یہ چمن تمہارا ہے، تم ہو نغمہ خواں اس کے

مسرور انور

بدھ، 27 جولائی، 2016

ہم جیسے تیغ ظلم سے ڈر بھی گئے تو کیا

ہم جیسے تیغ ظلم سے ڈر بھی گئے تو کیا
کچھ وہ بھی ہیں جو کہتے ہیں سر بھی گئے تو کیا

اٹھتی رہیں گی درد کی ٹیسیں تمام عمر
ہیں زخم تیرے ہاتھ کے بھر بھی گئے تو کیا

ہیں کون سے بہار کے دن اپنے منتظر
یہ دن کسی طرح سے گزر بھی گئے تو کیا

اک مکر ہی تھا آپ کا ایفائے عہد بھی
اپنے کہے سے آج مکر بھی گئے تو کیا

ہم تو اسی طرح سے پھریں گے  خراب حال
یہ شعر تیرے دل میں اتر بھی گئے تو کیا

باصؔر تمہیں یہاں کا ابھی تجربہ نہیں
بیمار ہو؟ پڑے رہو، مر بھی گئے تو کیا

جمعرات، 14 جولائی، 2016

دوریاں مٹ جائیں گی اور فاصلہ رہ جائے گا

دوریاں مٹ جائیں گی اور فاصلہ رہ جائے گا
ختم ہو جائیں گے رشتے ، رابطہ رہ جائے گا

کرکرا ہو جائے گا میٹھا مزہ الفاظ کا
تلخ لہجے کا زباں پر ذائقہ رہ جائے گا

جھوٹ اک دن بولنے لگ جائیں گی آنکھیں سبھی
اور منہ تکتا ہمارا آئنہ رہ جائے گا

منزلیں بڑھ کر مسافر کے گلے لگ جائیں گی
پاؤں چھونے کو ترستا راستہ رہ جائے گا

بھول جائے گا ہمیں ہر گنگناتا واقعہ
حافظے میں کلبلاتا حادثہ رہ جائے گا

یوں بدن میں بے حسی بیگانگی بس جائے گی
روح سے بھی واجبی سا واسطہ رہ جائے گا

عام ہو جائے گا اتنا سرد مہری کا چلن
منجمد ہو کر خوشی کا قہقہہ رہ جائے گا

ایک نقطے کی کمی عاجزؔ کہیں رہ جائے گی

نامکمل دوستی کا دائرہ رہ جائے گا

بدھ، 13 جولائی، 2016

ایک خواب

ایک خواب


ایک ہی خواب کئی بار یوں ہی دیکھا ہے میں نے
تو نے ساڑی میں اڑس لی ہیں مری چابیاں گھر کی
اور چلی آئی ہے بس یوں ہی مرا ہاتھ پکڑ کر
گھر کی ہر چیز سنبھالے ہوئے اپنائے ہوئے تو

تو مرے پاس مرے گھر پہ مرے ساتھ ہے سونوںؔ

میز پر پھول سجاتے ہوئے دیکھا ہے کئی بار
اور بستر سے کئی بار جگایا بھی ہے تجھ کو
چلتے پھرتے ترے قدموں کی وہ آہٹ بھی سنی ہے

گنگناتی ہوئی نکلی ہے غسل خانے سے جب بھی
اپنے بھیگے ہوئے بالوں سے ٹپکتا ہوا پانی
میرے چہرے پر چھڑک دیتی ہے تو سونوںؔ کی بچی

فرش پر لیٹ گئی ہے تو کبھی روٹھ کے مجھ سے
اور کبھی فرش سے مجھ کر بھی اٹھا یا ہے منا کر
تاش کے پتوں پہ لڑتی ہے کبھی کھیل میں مجھ سے
اور کبھی لڑتی بھی ایسے ہے کہ بس کھیل رہی ہے
اور آغوش میں ننھے کو

اور معلوم ہے جب دیکھا تھا یہ خواب تمہارا
اپنے بسترپہ میں اس وقت پڑا جاگ رہا تھا 

پیر، 13 جون، 2016

بند باہر سے، مِری ذات کا دَر ہے مُجھ میں

بند باہر سے، مِری ذات کا دَر ہے مُجھ میں
میں نہیں خُود میں، یہ اِک عام خبر ہے مُجھ میں

اِک عَجَب آمد و شُد ہے کہ، نہ ماضی ہے نہ حال
جونؔ ! بَرپا کئی نسلوں کا سفر ہے مُجھ میں

ہے مِری عُمر جو حیران تماشائی ہے !
اور اِک لمحہ ہے، جو زیر و زبر ہے مُجھ میں

کیا ترستا ہُوں کہ، باہر کے کسی کام آئے !
وہ اِک انبوہ کہ بس، خاک بسر ہے مُجھ میں

ڈوبنے والوں کے دریا مِلے پایاب مُجھے
اُس میں، اب ڈوب رہا ہُوں، جو بھنور ہے مُجھ میں

دَر و دِیوار تو باہر کے ہیں ڈھینے والے
چاہے رہتا نہیں میں، پر مِرا گھر ہے مُجھ میں

میں جو پیکار میں اندر کی ہُوں بے تیغ و زِرہ
آخرش کون ہے؟ جو سِینہ سِپر ہے مُجھ میں

معرکہ گرم ہے بے طَور سا کوئی ہر دَم !
نہ کوئی تیغ سلامت، نہ سِپر ہے مُجھ میں

زخم ہا زخم ہُوں، اور کوئی نہیں خُوں کا نِشاں !
کون ہے وہ؟ جو مِرے خون میں تر ہے مُجھ میں

جمعہ، 10 جون، 2016

کیا ہے ترکِ دنیا کاہلی سے

کیا ہے ترکِ دنیا کاہلی سے
ہمیں حاصل نہیں بے حاصلی سے

خراجِ دیہہِ ویراں، یک کفِ خاک
بیاباں خوش ہوں تیری عاملی سے

پرافشاں ہو گئے شعلے ہزاروں
رہے ہم داغ، اپنی کاہلی سے

خدا، یعنی پدر سے مہرباں تر
پھرے ہم در بدر ناقابلی سے

اسؔد قربانِ لطفِ جورِ بیدل
خبر لیتے ہیں، لیکن بیدلی سے

پیر، 6 جون، 2016

ساری خلقت ایک طرف تھی اور دوانہ ایک طرف

ساری خلقت ایک طرف تھی اور دوانہ ایک طرف
تیرے لیے میں پاؤں پہ اپنے جم کے  کھڑا تھا ایک طرف

ایک اک کر کے ہر منزل کی سمت ہی بھول رہا تھا میں
دھیرے دھیرے کھینچ رہا تھا تیرا رشتہ ایک طرف

دونوں سے میں بچ کر تیرے خواب و خیال سے گزر گیا
دل کا صحرا ایک طرف تھا آنکھ کا دریا ایک طرف

آگے آگے بھاگ رہا ہوں اب وہ میرے پیچھے ہے
اک دن تیری چاہ میں کی تھی میں نے دنیا ایک طرف

دوسری جانب اک بادل نے بڑھ کر ڈھانپ لیا تھا چاند
اور آنکھوں میں ڈوب رہا تھا دل کا ستارا ایک طرف

وقت جواری کی بیٹھک میں جو آیا سو ہار گیا
اختؔر اک دن میں بھی دامن جھاڑ کے نکلا ایک طرف

جمعہ، 22 اپریل، 2016

جو دکھ رہا اسی کے اندر جو ان دکھا ہے وہ شاعری ہے

جو دکھ رہا اسی کے اندر جو ان دکھا ہے وہ شاعری ہے
جو کہہ سکا تھا وہ کہہ چکا ہوں جو رہ گیا ہے وہ شاعری ہے

یہ شہر سارا تو روشنی میں کھلا پڑا ہے سو کیا لکھوں میں
وہ دور جنگل کی جھونپڑی میں جو اک دیا ہے وہ شاعری ہے

دلوں کے مابین گفتگو میں تمام باتیں اضافتیں ہیں
تمہاری باتوں کا ہر توقف جو بولتا ہے وہ شاعری ہے

تمام دریا جو ایک سمندر میں گر رہے ہیں تو کیا عجب ہے
وہ ایک دریا جو راستے میں ہی رہ گیا ہے وہ شاعری ہے

احمد سلمان
اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔