پیر، 25 جنوری، 2016

کتنی گرہیں کھولی ہیں میں نے

کتنی گرہیں کھولی ہیں میں نے
کتنی گرہیں اب باقی ہیں

پاؤں میں پائل
باہوں میں کنگن
گلے میں ہنسلی
کمر بند، چھلّے اور بِچھوے
ناک کان چِھدوائے گئے ہیں
اور زیور زیور کہتے کہتے
رِیت رواج کی رسیوں سے میں جکڑی گئی

اُف
کتنی طرح میں پکڑی گئی

اب چِھلنے لگے ہیں ہاتھ پاؤں
اور کتنی خراشیں اُبھری ہیں
کتنی گرہیں کھولی ہیں میں نے
کتنی رسّیاں اتری ہیں

اَنگ اَنگ، میرا روپ رنگ
میرے نقش نین، میرے بول بین
میری آواز میں کوئل کی تعریف ہوئی
میری زلف سانپ، میری زلف رات
زلفوں میں گھٹا، میرے لَب گلاب
آنکھیں شراب
غزلیں اور نظمیں کہتے کہتے
میں حُسن اور عشق کے افسانوں میں جکڑی گئی

اُف
کتنی طرح میں پکڑی گئی

میں پوچھوں ذرا
آنکھوں میں شراب دِکھی سب کو
آکاش نہیں دیکھا کوئی
ساون بھادو تو دِکھے مگر
کیا درد نہیں دیکھا کوئی

فن کی جِھلّی سی چادر میں
بُت چِھیلے گئے عریانی کے
تاگا تاگا کر کے، پوشاک اُتاری گئی
میرے جسم پہ فن کی مشق ہوئی
اور آرٹ کا نام کہتے کہتے
سنگِ مرمر میں جکڑی گئی

اُف
کتنی طرح میں پکڑی گئی

بتلائے کوئی، بتلائے کوئی
کتنی گرہیں کھولی ہیں میں نے
کتنی گرہیں اب باقی ہیں

پیر، 18 جنوری، 2016

چراغ اپنی تھکن کی کوئی صفائی نہ دے

چراغ اپنی تھکن کی کوئی صفائی نہ دے
وہ تیرگی ہے کہ اب خواب تک دکھائی نہ دے

مسرتوں میں بھی جاگے گناہ کا احساس
مرے وجود کو اتنی بھی پارسائی نہ دے

بہت ستاتے ہیں رشتے جو ٹوٹ جاتے ہیں
خدا کسی کو بھی توفیق آشنائی نہ دے

میں ساری عمر اندھیروں میں کاٹ سکتا ہوں
مرے دیوں کو مگر روشنی پرائی نہ دے

اگر یہی تری دنیا کا حال ہے مالک
تو میری قید بھلی ہے مجھے رہائی نہ دے

دعا یہ مانگی ہے سہمے ہوئے مؤرخ نے 
کہ اب قلم کو خدا سرخ روشنائی نہ دے

معرؔاج فیض آبادی

بدھ، 13 جنوری، 2016

بھلے دنوں کی بات ہے بھلی سی ایک شکل تھی​

بھلے دنوں کی بات ہے بھلی سی ایک شکل تھی​
نہ یہ کہ حُسن تام ہو نہ دیکھنے میں عام سی​
نہ یہ کہ وہ چلے تو کہکشاں سی رہ گزر لگے​
مگر وہ ساتھ ہو تو پھر بھلا بھلا سفر لگے​
کوئی بھی رُت ہو اُس کی چھب فضا کا رنگ و روپ تھی​
وہ گرمیوں کی چھاؤں تھی وہ سردیوں کی دھوپ تھی​
نہ مدّتوں جدا رہے نہ ساتھ صبح و شام ہو​
نہ رشتۂ وفا پہ ضد نہ یہ کہ اذنِ عام ہو​
نہ ایسی خوش لباسیاں کہ سادگی گلہ کرے​
نہ اتنی بے تکلّفی کہ آئینہ حیا کرے​
نہ اختلاط میں وہ رنگ کہ بدمزہ ہوں خواہشیں​
نہ اس قدر سپردگی کہ زچ کریں نوازشیں​
نہ عاشقی جنون کی کہ زندگی عذاب ہو​
نہ اس قدر کٹھور پن کہ دوستی خراب ہو​
کبھی تو بات بھی خفی کبھی سکوت بھی سُخن​
کبھی تو کشتِ زعفراں کبھی اُداسیوں کا بن​
سنا ہے ایک عمر ہے معاملاتِ دل کی بھی​
وصالِ جاں فزا تو کیا فراقِ جاں گسل کی بھی​
سو ایک روز کیا ہوا وفا پہ بحث چھڑ گئی​
میں عشق کو امر کہوں وہ میری ضد سے چڑ گئی​
میں عشق کا اسیر تھا وہ عشق کو قفس کہے​
کہ عمر بھر کے ساتھ کو وہ بد تر از ہوس کہے​
شجر حجر نہیں کہ ہم ہمیشہ پابہ گِل رہیں​
نہ ڈھور ہیں کہ رسیاں گلے میں مستقل رہیں​
محبتوں کی وسعتیں ہمارے دست و پا میں ہیں​
بس ایک در سے نسبتیں سگانِ با وفا میں ہیں​
میں کوئی پینٹنگ نہیں کہ اک فریم میں رہوں​
وہی جو من کا میت ہو اُسی کے پریم میں رہوں​
تمہاری سوچ جو بھی ہو میں اس مزاج کی نہیں​
مجھے وفا سے بیر ہے یہ بات آج کی نہیں​
نہ اُس کو مجھ پہ مان تھا نہ مجھ کو اُس پہ زعم ہی​
جب عہد ہی کوئی نہ ہو تو کیا غمِ شکستگی​
سو اپنا اپنا راستہ ہنسی خوشی بدل لیا​
وہ اپنی راہ چل پڑی میں اپنی راہ چل دیا​
بھلی سی ایک شکل تھی بھلی سی اُس کی دوستی​
اب اُس کی یاد رات دن؟ نہیں! مگر کبھی کبھی​

اتوار، 10 جنوری، 2016

بکھرے بکھرے سہمے سہمے روز و شب دیکھے گا کون

بکھرے بکھرے سہمے سہمے روز و شب دیکھے گا کون
لوگ تیرے جرم دیکھیں گے سبب دیکھے گا کون

ہاتھ میں سونے کا کاسہ لے کے آئے ہیں فقیر
اس نمائش میں ترا دست طلب دیکھے گا کون

لا اٹھا تیشہ چٹانوں سے کوئی چشمہ نکال
سب یہاں پیاسے ہیں تیرے خشک لب دیکھے گا کون

دوستوں کی بےغرض ہمدردیاں تھک جائیں گی
جسم پر اتنی خراشیں ہیں کہ سب دیکھے گا کون

شاعری میں میؔر و غاؔلب کے زمانے اب کہاں
شہرتیں جب اتنی سستی ہوں ادب دیکھے گا کون

معرؔاج فیض آبادی
اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔