بدھ، 24 فروری، 2016

دیتی نہیں اماں جو زمیں آسماں تو ہے

دیتی نہیں اماں جو زمیں آسماں تو ہے
کہنے کو تو اپنے دل میں کوئی داستاں تو ہے

یوں تو ہے رنگ زرد مگر ہونٹ لال ہیں
صحرا کی وسعتوں میں کہیں گلستاں تو ہے

اک چیل ایک ممٹی پہ بیٹھی ہے دھوپ میں
گلیاں اجڑ گئی ہیں مگر پاسباں تو ہے

آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے
ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے

مجھ سے بہت قریب ہے تو پھر بھی اے منیر
پردہ سا کوئی میرے تیرے درمیاں تو ہے
اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔