پیر، 13 جون، 2016

بند باہر سے، مِری ذات کا دَر ہے مُجھ میں

بند باہر سے، مِری ذات کا دَر ہے مُجھ میں
میں نہیں خُود میں، یہ اِک عام خبر ہے مُجھ میں

اِک عَجَب آمد و شُد ہے کہ، نہ ماضی ہے نہ حال
جونؔ ! بَرپا کئی نسلوں کا سفر ہے مُجھ میں

ہے مِری عُمر جو حیران تماشائی ہے !
اور اِک لمحہ ہے، جو زیر و زبر ہے مُجھ میں

کیا ترستا ہُوں کہ، باہر کے کسی کام آئے !
وہ اِک انبوہ کہ بس، خاک بسر ہے مُجھ میں

ڈوبنے والوں کے دریا مِلے پایاب مُجھے
اُس میں، اب ڈوب رہا ہُوں، جو بھنور ہے مُجھ میں

دَر و دِیوار تو باہر کے ہیں ڈھینے والے
چاہے رہتا نہیں میں، پر مِرا گھر ہے مُجھ میں

میں جو پیکار میں اندر کی ہُوں بے تیغ و زِرہ
آخرش کون ہے؟ جو سِینہ سِپر ہے مُجھ میں

معرکہ گرم ہے بے طَور سا کوئی ہر دَم !
نہ کوئی تیغ سلامت، نہ سِپر ہے مُجھ میں

زخم ہا زخم ہُوں، اور کوئی نہیں خُوں کا نِشاں !
کون ہے وہ؟ جو مِرے خون میں تر ہے مُجھ میں

جمعہ، 10 جون، 2016

کیا ہے ترکِ دنیا کاہلی سے

کیا ہے ترکِ دنیا کاہلی سے
ہمیں حاصل نہیں بے حاصلی سے

خراجِ دیہہِ ویراں، یک کفِ خاک
بیاباں خوش ہوں تیری عاملی سے

پرافشاں ہو گئے شعلے ہزاروں
رہے ہم داغ، اپنی کاہلی سے

خدا، یعنی پدر سے مہرباں تر
پھرے ہم در بدر ناقابلی سے

اسؔد قربانِ لطفِ جورِ بیدل
خبر لیتے ہیں، لیکن بیدلی سے

پیر، 6 جون، 2016

ساری خلقت ایک طرف تھی اور دوانہ ایک طرف

ساری خلقت ایک طرف تھی اور دوانہ ایک طرف
تیرے لیے میں پاؤں پہ اپنے جم کے  کھڑا تھا ایک طرف

ایک اک کر کے ہر منزل کی سمت ہی بھول رہا تھا میں
دھیرے دھیرے کھینچ رہا تھا تیرا رشتہ ایک طرف

دونوں سے میں بچ کر تیرے خواب و خیال سے گزر گیا
دل کا صحرا ایک طرف تھا آنکھ کا دریا ایک طرف

آگے آگے بھاگ رہا ہوں اب وہ میرے پیچھے ہے
اک دن تیری چاہ میں کی تھی میں نے دنیا ایک طرف

دوسری جانب اک بادل نے بڑھ کر ڈھانپ لیا تھا چاند
اور آنکھوں میں ڈوب رہا تھا دل کا ستارا ایک طرف

وقت جواری کی بیٹھک میں جو آیا سو ہار گیا
اختؔر اک دن میں بھی دامن جھاڑ کے نکلا ایک طرف
اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔