جمعہ، 16 ستمبر، 2016

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی

رخصت ہوا تو بات مری مان کر گیا
جو اُس کے پاس تھا وہ مجھے دان کر گیا

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کرگیا

دلچسپ واقعہ ہے کہ کل اِک عزیز دوست
اپنے مفاد پر مجھے قربان کرگیا

کتنی سدھر گئی ہے جدائی میں زندگی
ہاں وہ جفا سے مجھ پہ تو احسان کر گیا

خالؔد میں بات بات پہ کہتا تھا جس کو جان
وہ شخص آخرش مجھے بے جان کر گیا

جمعہ، 9 ستمبر، 2016

امیر شہر نے ہیرے سے خودکشی کر لی

جو اپنی خواہشوں میں تو نے کچھ کمی کر لی
تو پھر یہ جان کہ تو نے پیمبری کر لی

تجھے میں زندگی اپنی سمجھ رہا تھا مگر
ترے بغیر بسر میں نے زندگی کر لی

پہنچ گیا ہوں میں منزل پہ گردش دوراں
ٹھہر بھی جا کہ بہت تو نے رہبری کر لی

جو میرے گاؤں کے کھیتوں میں بھوگ اگنے لگی
مرے کسانوں نے شہروں میں نوکری کر لی

جو سچی بات تھی وہ میں نے برملا کہہ دی
یوں اپنے دوستوں سے میں نے دشمنی کر لی

مشینی عہد میں احساس زندگی بن کر
دکھی دلوں کے لیے میں نے شاعری کر لی

غریب شہر تو فاقے سے مر گیا عاؔرف
امیر شہر نے ہیرے سے خودکشی کر لی
اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔