منگل، 18 اپریل، 2017

میں الجھ گیا جہاں راہ میں وہاں ایک جم غفیر تھا

دو یا تین سال قبل محمداحمد بھائی نے اعزاز احمد آذؔر صاحب کا کلام بزبان شاعر پیش کیا تھا جس کی آج یوں ہی بیٹھے بیٹھے مجھے یاد آگئی۔ تلاش بسیار کے باوجود مجھے یونیکوڈ میں وہ کلام نہیں ملا ، ماسوائے ان دو اشعار کے جو میں نے ہی بدقسمتی سے وہاں سے سن کر لکھے تھے۔ آج اسی کلام کو دوبارہ سن کر یہاں پیش کر رہا ہوں۔ املا کی اغلاط ہوں یا سننے میں کوئی کمی کوتاہی ہو تو نشاندہی فرمائیے  گا۔

میں الجھ گیا جہاں راہ میں وہاں ایک جم غفیر تھا
مرے مہرباں مری کیا خطا، وہاں تیرا ذکر کثیر تھا

مرے دوستو مرے ساتھیو ، مجھے شہر سے کہیں لے چلو
میں اسیر حبس مدام ہوں، میں کھلی ہوا کا سفیر تھا

جو بدل گئی ہے ہوا تو کیا، ہوں گدائے شہر وفا تو کیا
ابھی اگلے روز کی بات ہے،  اسی سلطنت کا امیر تھا

اے فقیہ شہر وہ کیا ہوئی، یہاں سب سے اہم جو چیز تھی
وہی جس پہ آپ کو ناز تھا، وہی جس کا نام ضمیر تھا

ذرا بھول کر مری ہار کو ، مرے دشمنوں مجھے داد دو
میں لڑا ہوں آخری سانس تک، مرے پاس ایک ہی تیر تھا

ذرا ٹھہر آذؔر کج سخن، تجھے کون پوچھے گا جانِ من
یہ وہ شہر فن ہے جہاں کبھی ، کوئی داغ تھا کوئی میر تھا
اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔