جمعہ، 31 جولائی، 2015

جو شجر سوکھ گیا ہے وہ ہرا کیسے ہو​

جو شجر سوکھ گیا ہے وہ ہرا کیسے ہو​
مَیں پیمبر تو نہیں، میرا کہا کیسے ہو​

دل کے ہر ذرے پہ ہے نقش محبت اس کی​
نور آنکھوں کا ہے، آنکھوں سے جدا کیسے ہو​
جس کو جانا ہی نہیں اس کو خدا کیوں مانیں​
اور جسے جان چکے ہیں، وہ خدا کیسے ہو​
عمر ساری تو اندھیرے میں نہیں کٹ سکتی​
ہم اگر دل نہ جلائیں تو ضیاء کیسے ہو​
جس سے دو روز بھی کُھل کر نہ ملاقات ہوئی​
مدتوں بعد ملے بھی تو گلہ کیسے ہو​
دُور سے دیکھ کے مَیں نے اسے پہچان لیا​
اس نے اتنا بھی نہیں مجھ سے کہا، "کیسے ہو؟"​
وہ بھی اِک دور تھا جب میں نے تجھے چاہا تھا​
دل کا دروازہ ہے، ہر وقت کھلا کیسے ہو​
جب کوئی دادِ وفا چاہنے والا نہ رہا​
کون انصاف کرے، حشر بپا کیسے ہو​
آئینے میں بھی نظر آتی ہے صورت تیری​
کوئی مقصودِ نظر تیرے سوا کیسے ہو​
کن نگاہوں سے اسے دیکھ رہا ہوں شہزادؔ​
مجھ کو معلوم نہیں، اس کو پتا کیسے ہو​
اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔