بدھ، 21 اکتوبر، 2015

یادیں ہیں اپنے شہر کی اہل سفر کے ساتھ

یادیں ہیں اپنے شہر کی اہل سفر کے ساتھ
صحرا میں لوگ آئےہیں دیوار و در کے ساتھ

منظر کو دیکھ کر پس منظر بھی دیکھئے
بستی نئی بسی ہے پرانے کھنڈر کے ساتھ

سائے میں جان پڑ گئی دیکھا جو غور سے
مخصوص یہ کمال ہے اہلِ نظر کے ساتھ

اک دن ملا تھا بام پہ سورج کہیں جسے
الجھے ہیں اب بھی دھوپ کے ڈورے کگر کےساتھ

اک یاد ہے کہ دامنِ دل چھوڑتی نہیں
اک بیل ہے کہ لپٹی ہوئی ہے شجر کے ساتھ

اس مرحلے کو موت بھی کہتے ہیں دوستو
اک پل میں ٹوٹ جائیں جہاں عمر بھر کے ساتھ

میری طرح یہ صبح بھی فنکار ہے شکیبؔ
لکھتی ہے آسماں پہ غزل آب زر کے ساتھ

پیر، 19 اکتوبر، 2015

یہ پیہم تلخ کامی سی رہی کیا

یہ پیہم تلخ کامی سی رہی کیا
محبت زہر کھا کر آئی تھی کیا

مجھے اب تم سے ڈر لگنے لگا ہے
تمہیں مجھ سے محبت ہو گئی کیا

شکستِ اعتمادِ ذات کے وقت
قیامت آرہی تھی، آگئی کیا

مجھے شکوہ نہیں بس پوچھنا ہے
یہ تم ہنستی ہو، اپنی ہی ہنسی کیا

ہمیں شکوہ نہیں، ایک دوسرے سے
منانا چاہیے اس پر خوشی کیا

پڑے ہیں ایک گوشے میں گماں کے
بھلا ہم کیا، ہماری زندگی کیا

میں رخصت ہو رہا ہوں، پر تمہاری
اداسی ہوگئی ہے ملتوی کیا

میں اب ہر شخص سے اکتا چکا ہوں 
فقط کچھ دوست ہیں، اور دوست بھی کیا

محبت میں ہمیں پاسِ انا تھا
بدن کی اشتہا صادق نہ تھی کیا

نہیں رشتہ سموچا زندگی سے
نجانے ہم میں ہے اپنی کمی کیا

ابھی ہونے کی باتیں ہیں، سو کر لو
ابھی تو کچھ نہیں ہونا، ابھی کیا

یہی پوچھا  کیا میں آج دن بھر
ہر  اک انسان کو روٹی ملی کیا

یہ ربطِ بےشکایت اور یہ میں
جو شے سینے میں تھی، وہ بجھ گئی کیا
اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔