اتوار، 6 مارچ، 2016

پس چہ باید کرد

آج ظہیراحمدظہیر صاحب کے توجہ دلانے پر ہم نے دیکھا تو پتا چلا کہ افتخار عارف صاحب کی یہ مشہور زمانہ نظم محفل تو درکنار اردو ٹائپنگ میں ہی میسر نہیں۔ سو ریختہ سے دیکھ کر ٹائپ کر دی۔

پس چہ باید کرد

خواب خس خانہ و برفاب کے پیچھے پیچھے
گرمیٔ شہر مقدر کے ستائے ہوئے لوگ
کیسی یخ بستہ زمینوں کی طرف آنکلے

موج خوں برف ہوئی جاتی ہے سانسیں بھی ہیں برف
وحشتیں جن کا مقدر تھیں وہ آنکھیں بھی ہیں برف
دل شوریدہ کا مواج سمندر بھی ہے برف
یاد یاران دل آویز کا منظر بھی ہے برف
ایک اک نام ہر آواز ہر اک چہرہ برف
منجمد خواب کی ٹکسال کا ہر سکہ برف
اور اب سوچتے ہیں شام و سحر سوچتے ہیں
خواب خس خانہ و برفاب سے وہ آگ بھلی
جس کے شعلوں میں بھی قرطاس و قلم زندہ ہیں
جس میں ہر عہد کے ہر نسل کے غم زندہ ہیں
خاک ہو کر بھی یہ لگتا تھا کہ ہم زندہ ہیں

افتخار عارف
اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔