منگل، 25 اکتوبر، 2016

میں نے کس شوق سے اِک عمر غزل خوانی کی

میں نے کس شوق سے اِک عمر غزل خوانی کی
کتنی گہری ہیں لکیریں میری پیشانی کی

وقت ہے میرے تعاقب میں چھپا لے مجھ کو
جوئے کم آب!قسم تجھ کو ترے پانی کی

یُوں گزرتی ہے رگ و پے سے تری یاد کی لہر
جیسے زنجیر چھنک اُٹھتی ہے زندانی کی

اجنبی سے نظر آئے ترے چہرے کے نقوش
جب ترے حُسن پہ میں نے نظرثانی کی

مجھ سے کہتا ہے کوئی،آپ پریشاں نہ ہوں
مری زلفوں کو تو عادت ہے پریشانی کی

زندگی کیا ہے؟طلسمات کی وادی کا سفر
پھر بھی فرصت نہیں ملتی مجھے حیرانی کی

وہ بھی تھے ذکر بھی تھا رنگ غزل کا شبنؔم
پھر تو میں نے سر ِ محفل وہ گل افشانی کی

شبنؔم رومانی

پیر، 17 اکتوبر، 2016

گِن گِن تارے لنگھدیاں راتاں

گِن گِن تارے لنگھدیاں راتاں
سپّاں وانگر ڈنگدیاں راتاں

رانجھا تخت ہزارہ بُھلیا
بُھلیا ں نئیں پر جھنگ دیاں راتاں

اکھیاں وچ جگراتے رہندے
سُولی اُتے ٹنگدیاں راتاں

ہور کسے ول جان ناں دیون
اپنے رنگ وِچ رنگدیاں راتاں

مینوں کوئی سمجھ  ناں آوے
آئیاں کہدے ڈھنگ  دیاں راتاں

برؔی نظامی یاد نئیں مینوں
ہُن خورے کی منگدیاں راتاں

جمعہ، 14 اکتوبر، 2016

ہجر میں اُن کی ہُوا ایسا میں بیمار کہ بس

ہجر میں اُن کی ہُوا ایسا میں بیمار کہ بس
روزِ رحلت پہ کہَیں سب مِرے غمخوار کہ بس

خُوگرِ غم ہُوا اِتنا، کہ بُلانے پر بھی !
خود کہَیں مجھ سے اب اِس دہر کے آزار کہ بس

حالِ دِل کِس کو سُناؤں، کہ شُروعات ہی میں
کہہ اُٹھیں جو بھی بظاہر ہیں مِرے یار کہ بس

کیا زمانہ تھا دھڑکتے تھے بیک رنگ یہ جب
درمیاں دِل کے اُٹھی یُوں کوئی دیوار کہ بس

بارہا، در سے اُٹھانے پہ دوبارہ تھا وہیں !
میں رہا دِل سے خود اپنے ہی یُوں ناچار کہ بس

اِک خوشی کی بھی نہیں بات سُنانے کو خلِش 
گُذرے ایسے ہیں مِری زیست کے ادوار کہ بس

بدھ، 5 اکتوبر، 2016

ادا شناس ترا بےزباں نہیں ہوتا

ادا شناس ترا بےزباں نہیں ہوتا
کہے وہ کس سے کوئی نکتہ داں نہیں ہوتا

سب ایک رنگ میں ہیں مے کدے کے خورد و کلاں
یہاں تفاوت پیر و جواں نہیں ہوتا

قمار عشق میں سب کچھ گنوا دیا میں نے
امید نفع میں خوف زیاں نہیں ہوتا

سہم رہا ہوں میں اے اہل قبر بتلا دو
زمیں تلے تو کوئی آسماں نہیں ہوتا

وہ محتسب ہو کہ واعظ وہ فلسفی ہو کہ شیخ
کسی سے بند ترا راز داں نہیں ہوتا

وہ سب کے سامنے اس سادگی سے بیٹھے ہیں
کہ دل چرانے کا ان پر گماں نہیں ہوتا

جو آپ چاہیں کہ لے لیں کسی کا مفت میں دل
تو یہ معاملہ یوں مہرباں نہیں ہوتا

جہاں فریب ہو مجذوبؔ یہ تری صورت
بتوں کے عشق کا تجھ پر گماں نہیں ہوتا

خواجہ عزیز الحسن مجذؔوب
اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔