ہفتہ، 8 دسمبر، 2012

تہوں میں دل کے جہاں کوئی واردات ہوئی

تہوں میں دل کے جہاں کوئی واردات ہوئی
حیاتِ تازہ سے لبریز کائنات ہوئی

تم ہی نے باعثِ غم بارہا کِیا دریافت
کہا تو رُوٹھ گئے یہ بھی کوئی بات ہوئی

حیات، رازِ سُکوں پا گئی ازل ٹہری
ازل میں تھوڑی سی لرزِش ہوئی حیات ہوئی

تھی ایک کاوشِ بے نام دل میں فِطرت کے
سِوا ہوئی تو وہی آدمی کی ذات ہوئی

بہت دِنوں میں محبت کو یہ ہُوا معلوم
جو تیرے ہجر میں گزری، وہ رات رات ہوئی

فراق کو کبھی اِتنا خموش دیکھا تھا؟
ضرور اے نِگہہ ناز کوئی بات ہوئی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔