بدھ، 5 دسمبر، 2012

کوئی سایہ اچھے سائیں دھوپ بہت ہے

کوئی سایہ اچھے سائیں دھوپ بہت ہے
مر جاؤں گا اچھے سائیں دھوپ بہت ہے

سانولی رت میں خواب جلے تو آنکھ کھلی
میں نے دیکھا اچھے سائیں دھوپ بہت ہے

اب کے موسم یہی رہا تو مر جائے گا
اک اک لمحہ اچھے سائیں دھوپ بہت ہے

کوئی ٹھکانہ بخش اسے جو گھوم رہا ہے
مارا مارا اچھے سائیں دھوپ بہت ہے

ایک تو دل کے رستے بھی دشوار بہت ہیں
پھر میں پیاسا اچھے سائیں دھوپ بہت ہے

کوئی سایہ آگ میں جلنے والوں پر بھی
کوئی پروا اچھے سائیں دھوپ بہت ہے

رات کو اک پاگل نے شہر کی دیواروں پر
خون سے لکھا اچھے سائیں دھوپ بہت ہے

اچھے سائیں مان لیا دنیا ہے روشن
لیکن یہ کیا اچھے سائیں دھوپ بہت ہے

کون تھا جس سے دل کی حالت کہتا میں
کس سے کہتا اچھے سائیں دھوپ بہت ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔