ہفتہ، 8 دسمبر، 2012

گذر آیا میں چل کے خود پر سے

گذر آیا میں چل کے خود پر سے
اک بلا تو ٹلی مرے سر سے

مستقل بولتا ہی رہتا ہوں
کتنا خاموش ہوں میں اندر سے

مجھ سے اب لوگ کم ہی ملتے ہیں
یوں بھی میں ہٹ گیا ہوں منظر سے

میں خمِ کوچہ ء جدائی تھا
سب گزرتے گئے برابر سے

حجرہ ء صد بلا ہے باطن ذات
خود کو تو کھینچیئو نہ باہر سے

کیا سحر ہوگئی دل بے خواب
اک دھواں اٹھ رہا ہے بستر سے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔