جمعہ، 7 دسمبر، 2012

بھوک

آنکھ کھل گئی میری
ہوگیا میں پھر زندہ
پیٹ کے اندھیروں سے
ذہن کے دھندلکوں تک
ایک سانپ کے جیسا
رینگتا خیال آیا
آج تیسرا دن ہے آج تیسرا دن ہے

اک عجیب خاموشی
منجمد ہے کمرے میں
ایک فرش اور اک چھت
اور چار دیواریں
مجھ سے بے تعلّق سب
سب مرے تماشائی
سامنے کی کھڑکی سے
تیز دھوپ کی کرنیں
آرہی ہیں بستر پر
چُبھ رہی ہیں چہرے پر
اس قدر نکیلی ہیں
جیسے رشتے داروں کے
طنز میری غربت پر
آنکھ کھل گئی میری
آج کھوکھلا ہوں میں
صرف خول باقی ہے
آج میرے بستر میں
لیٹا ہے مرا ڈھانچہ
اپنی مُردہ آنکھوں سے
دیکھتا ہے کمرے کو
آج تیسرا دن ہے آج تیسرا دن ہے

دوپہر کی گرمی میں
بے ارادہ قدموں سے
اک سڑک پہ چلتا ہوں
تنگ سی سڑک پر ہیں
دونوں سمت دُکانیں
خالی خالی آنکھوں سے
ہر دُکان کا تحتہ
صرف دیکھ سکتا ہوں
اب پڑھا نہیں جاتا
لوگ آتے جاتے ہیں
پاس سے گزرتے ہیں
پھر بھی کتنے دھندلے ہیں
سب ہیں جیسے بے چہرہ
شور ان دُکانوں کا
راہ چلتی اک گالی
ریڈیو کی آوازیں
دُور کی صدائیں ہیں
آرہی ہیں میلوں سے
جو بھی سن رہا ہوں میں
جو بھی دیکھتا ہوں میں
خواب جیسا لگتا ہے
ہے بھی اور نہیں بھی ہے
دوپہر کی گرمی میں
بے ارادہ قدموں سے
اک سڑک پہ چلتا ہوں
سامنے کے نُکّڑ پر
نل دکھائی دیتا ہے
سخت کیوں ہے یہ پانی
کیوں گلے میں پھنستا ہے
میرے پیٹ میں جیسے
گھونسہ ایک لگتا ہے
آرہا ہے چکّر سا
جسم پر پسینہ ہے
اب سکت نہیں باقی
آج تیسرا دن ہے آج تیسرا دن ہے

ہر طرف اندھیرا ہے
گھاٹ پر اکیلا ہوں
سیڑھیاں ہیں پتّھر کی
سیڑھیوں پہ لیٹا ہوں
اب میں اُٹھ نہیں سکتا
آسماں کو تکتا ہوں
آسماں کی تھالی میں
چاند ایک روٹی ہے
جھک رہی ہیں اب پلکیں
ڈوبتا ہے یہ منظر
ہے زمین گردش میں

میرے گھر میں چُولھا تھا
روز کھانا پَکتا تھا
روٹیاں سُنہری ہیں
گرم گرم یہ کھانا
کُھل نہیں رہی آنکھیں
کیا میں مرنے والا ہوں
ماں عجیب تھی میری
روزاپنے ہاتھوں سے
مجھ کو وہ کھلاتی تھی
کون سرد ہاتھوں سے
چھو رہا ہے چہرے کو
اک نوالا ہاتھی کا
اک نوالا گھوڑے کا
اک نوالا بھالو کا
موت ہے کہ بے ہوشی
جو بھی ہے غنیمت ہے
آج تیسرا دن تھا آج تیسرا دن تھا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔