اتوار، 16 دسمبر، 2012

الٹے ہور زمانے آئے، تاں میں بھیت سجن دے پائے


الٹے ہور زمانے آئے، تاں میں بھیت سجن دے پائے
جب میری توقعات کے برعکس کام ہونے لگے تو میں نے سچے رب کو پا لیا۔

کاں لگڑاں نوں ما رن لگے، چڑیاں جُرّے ڈھائے
گھوڑے چگن اوڑیاں تے، گدوں خوید پوائے
کوے زاغ کا شکار کھیلنے لگے ہیں اور چڑیوں نے باز اور شکرے مار گرائے ہیں
گھوڑوں نے گندگی کے ڈھیر چرنا شروع کر دیئے ہیں اور گدھ سر سبز گندم کے کھیتوں میں پھر رہے

آپنیں وچ الفت ناہیں، کی چاچے، کی تائے
پیو پتراں اتفاق نہ کوئی، دھیاں نال نہ مائے
اتحاد و محبت خاندان سے اٹھ گیا ہے اور بھائی بھائی سے بیزار ہے
باپ بیٹے گر آپس میں برسر پیکار ہیں تو ماں بھی بیٹیوں کے ساتھ نہیں ہے

سچیاں نوں پئے ملدے دھکے، جھوٹے کول بہائے
اگلے ہو کنگالے بیٹھے، پچھلیاں فرش بچھائے
سچے لوگ دھتکارے جا رہے ہیں اور جھوٹ بولنے والوں کو عزت و تکریم سے نوازا جا رہا ہے
اسلاف تو بھوک کا شکار ہو گئے جبکہ بعد میں آنے والوں کی خودنمائی اور شان و شوکت کا اظہار قابل دید ہے

بھریاں والے راجے کیتے، راجیں بھیک منگائے
بُلھیا! حکم حضوروں آیا، تِس نوں کون ہٹائے
جو لوگ بوریاں لپیٹ کر سوتے تھے آج بادشاہ بنے پھرتے ہیں اور راجہ لوگ در در کی ٹھوکریں کھا رہے
لیکن بلہے شاہ یہ تو تقدیر کے فیصلے ہیں ان کے آگے سرتابی کی مجال نہیں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔