پیر، 18 فروری، 2013

گھر سے ہم گھر تلک گئے ہوں گے

گھر سے ہم گھر تلک گئے ہوں گے
اپنے ہی آپ تک گئے ہوں گے

ہم جو اب آدمی ہیں پہلے کبھی
جام ہوں گے چھلک گئے ہوں گے

وہ بھی اب ہم سے تھک گیا ہو گا
ہم بھی اب اس سے تھک گئے ہوں گے

شب جو ہم سے ہوا معاف کرو
نہیں پی تھی بہک گئے ہوں گے

کتنے ہی لوگ حرص شہرت میں
دار پر خود لٹک گئے ہوں گے

شکر ہے اس نگاہ کم کا میاں
پہلے ہی ہم کھٹک گئے ہوں گے

ہم تو اپنی تلاش میں اکثر
از سما تا سمک گئے ہوں گے

اس کا لشکر جہاں تہاں یعنی
ہم بھی بس بے کمک گئے ہوں گے

جون ، اللہ اور یہ عالم
بیچ میں ہم اٹک گئے ہوں گے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔