جمعہ، 8 فروری، 2013

درد کے پھول بھی کھلتے ہیں بکھر جاتے ہیں

درد کے پھول بھی کھلتے ہیں بکھر جاتے ہیں
زخم کیسے بھی ہوں کچھ روز میں بھر جاتے ہیں

چھت کی کڑیوں سے اُترتے ہیں مرے خواب مگر
میری دیواروں سے ٹکراکے بکھر جاتے ہیں

اس دریچے میں بھی اب کوئی نہیں اور ہم بھی
سر جھکائے ہوئے چپ چاپ گزر جاتے ہیں

راسته روکے کھڑی ہے یہی الجھن کب سے
کوئی پوچھے تو کہیں کیا کہ کدھر جاتے ہیں

نرم آواز، بھلی باتیں، مہذب لہجے
پہلی بارش میں ہی یہ رنگ اُتر جاتے ہیں

3 تبصرے:

  1. واہ ! بہت لاجواب غزل ہے۔

    آپ کا حسنِ ذوق دیکھ کر دینے والے کی سخاوت پر یقین آنے لگتا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. بہت شکریہ احمد بھائی۔ آپکا حسن ظن ہے۔ :)

    جواب دیںحذف کریں
  3. شاندار نیرنگ بھائی۔ :)

    جواب دیںحذف کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔