ہفتہ، 30 مارچ، 2013

وہ موج تبسم شگفتہ شگفتہ، وہ بھولا سا چہرہ کتابی کتابی

وہ موج تبسم شگفتہ شگفتہ، وہ بھولا سا چہرہ کتابی کتابی
وہ سنبل سے گیسو سنہرے سنہرے، وہ مخمور آنکھیں گلابی گلابی

کف دست نازک حنائی حنائی، وہ لب ہائے شیریں شہابی شہابی
وہ باتوں میں جادو اداؤں میں ٹونا، وہ دزدیدہ نظریں عقابی عقابی

کبھی خوش مزاجی، کبھی بے نیازی، ابھی ہوشیاری، ابھی نیم خوابی
قدم بہکے بہکے نظر کھوئی کھوئی، وہ مخمور لہجہ شرابی شرابی

نہ حرف تکلم، نہ سعی تخاطب، سر بزم لیکن بہم ہم کلامی
اِدھر چند آنسو سوالی سوالی، اُدھر کچھ تبسم جوابی جوابی

وہ سیلاب خوشبو گلستاں گلستاں، وہ سرو خراماں بہاراں بہاراں
فروزاں فروزاں جبیں کہکشانی، درخشاں درخشاں نظر ماہتابی

نہ ہونٹوں پہ سرخی، نہ آنکھوں میں کاجل، نہ ہاتھوں میں کنگن، نہ پیروں میں پائل
مگر حسن سادہ مثالی مثالی، جواب شمائل فقط لاجوابی

وہ شہر نگاراں کی گلیوں کے پھیرے، سر کوئے خوباں فقیروں کے ڈیرے
مگر حرف پرسش نہ اذن گزارش، کبھی نامرادی کبھی باریابی

یہ سب کچھ کبھی تھا، مگر اب نہیں ہے کہ آوارہ فرہاد گوشہ نشیں ہے
نہ تیشہ بدوشی، نہ خارہ شگافی، نہ آہیں نہ آنسو نہ خانہ خرابی

کہ نظروں میں اب کوئی شیریں نہیں ہے، جدھر دیکھیئے ایک مریم کھڑی ہے
نجابت سراپا، شرافت تبسم، بہ عصمت مزاجی، بہ عفّت مآبی

جو گیسو سنہرے تھے اب نُقرئی ہیں، جن آنکھوں میں جادو تھا اب با وضو ہیں
یہ پاکیزہ چہرے یہ معصوم آنکھیں، نہ وہ بے حجابی نہ وہ بے نقابی

وہ عشق مجازی حقیقت میں ڈھل کر تقدس کی راہوں پہ اب گامزن ہے
جو حسن نگاراں فریب نظر تھا، فرشتوں کی صورت ہے گردوں جنابی

وہ صورت پرستی سے اکتا گیا ہے، خلوص نظر اور کچھ ڈھونڈتا ہے
نہ موج تبسم، نہ دست حنائی، نہ مخمور آنکھیں گلابی گلابی

نہ دزدیدہ نظریں عقابی عقابی، نہ مخمور لہجہ شرابی شرابی
نہ سنبل سے گیسو سنہرے سنہرے، نہ لب ہائے شیریں شہابی شہابی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔