ہفتہ، 13 اپریل، 2013

ہوکے غلطاں خوں میں، کوئی شہسوار آیا تو کیا

ہوکے غلطاں خوں میں، کوئی شہسوار آیا تو کیا
زخم خوردہ بےقراری کو، قرار آیا تو کیا

زندگی کی دھوپ میں مُرجھا گیا میرا شباب
اب بہار آئی تو کیا، ابرِ بہار آیا تو کیا

میرے تیور بُجھ گئے، میری نگاہیں جَل گئیں
اب کوئی آئینہ رُو، آئینہ دار آیا تو کیا

اب کہ جب جانانہ تم کو ہے سبھی پر اعتبار
اب تمہیں جانانہ  مجھ پر اعتبار آیا تو کیا

اب مجھے خود اپنی بانہوں پر نہیں ہے اختیار
ہاتھ پھیلائے کوئی بےاختیار آیا تو کیا

وہ تو اب بھی خواب ہے، بیدار بینائی کا خواب
زندگی میں خواب میں اس کو گُزار آیا تو کیا

ہم یہاں بیگانہ ہیں سو ہم میں سے جون ایلیا
کوئی جیت آیا تو یہاں اور کوئی ہار آیا تو کیا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔