بے سود ہمیں روزنِ دیوار سے مت دیکھ
ہم اجڑے ہوئے لوگ، ہمیں پیار سے مت دیکھ
پستی میں بھٹکنے کی ندامت نہ سوا کر
مڑ مڑ کے مجھے رفعتِ کہسار سے مت دیکھ
قیمت نہ لگا جذب ایثارِ طلب کی
ہر شے کو فقط چشمِ خریدار سے مت دیکھ
پھر تجربہ مرگ سے مت کر مجھے دوچار
میں ہجر زدہ ہوں مجھے اس پیار سے مت دیکھ
میں اور کہیں صاف دکھائی نہیں دوں گا
ہٹ کر مجھے آئینہ اشعار سے مت دیکھ
گر دھوپ میں چلنا ہے تو اس شجر طلب کو
کاغذ پہ اگائے ہوئے اشجار سے مت دیکھ
اتنا تو بھرم زخمِ شناسائی کا رکھ لے
ہنس کر مری جانب صفِ اغیار سے مت دیکھ
واہ بہت ہی خوب غزل ہے۔
جواب دیںحذف کریںخاص طور پر یہ شعر تو لاجواب ہے۔
پستی میں بھٹکنے کی ندامت نہ سوا کر
مڑ مڑ کے مجھے رفعتِ کہسار سے مت دیکھ
بہت شکریہ ! اس شراکت کا۔
شاعر کا نام کیا ہے؟
بہت شکریہ احمد بھائی انتخاب کو پسند کرنے کا۔۔۔ یہ اعتبار ساجد کی غزل ہے۔۔۔ اور انکے نام کے ساتھ ہی شائع کی ہے۔
جواب دیںحذف کریں