اب یہ سوچوں تو بھنورذہن میں پڑجاتے ہیں
کیسے چہرے ہیں ملتے ہیں بچھڑ جاتے ہیں
کیسے چہرے ہیں ملتے ہیں بچھڑ جاتے ہیں
کیوںترے درد کو دیں تہمتِ ویرانی دل؟
زلزلوں میں تو بھرے شہر اُجڑجاتے ہیں
زلزلوں میں تو بھرے شہر اُجڑجاتے ہیں
موسم درد میں اک دل بچاؤں کیسے
تیز آندھی میں تو خیمے بھی اکھڑ جاتے ہیں
تیز آندھی میں تو خیمے بھی اکھڑ جاتے ہیں
سوچ کا آئینہ دھندلاہو تو پھر وقت کے ساتھ
چاند چہروں کے خدوخال بگڑ جاتے ہیں
چاند چہروں کے خدوخال بگڑ جاتے ہیں
شدتِ غم میں بھی زندہ ہوں تو حیرت کیسی؟
کچھ دیئے تند ہواوٗں سے بھی لڑ جاتے ہیں
کچھ دیئے تند ہواوٗں سے بھی لڑ جاتے ہیں
وہ بھی کیا لوگ ہیں محسن جو وفا کی خاطر
خود تراشیدہ اُصولوں پہ بھی اَڑ جاتے ہیں
خود تراشیدہ اُصولوں پہ بھی اَڑ جاتے ہیں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں