بدھ، 17 اپریل، 2013

اب یہ سوچوں تو بھنورذہن میں پڑجاتے ہیں

اب یہ سوچوں تو بھنورذہن میں پڑجاتے ہیں
کیسے چہرے ہیں ملتے ہیں بچھڑ جاتے ہیں

کیوںترے درد کو دیں تہمتِ ویرانی دل؟
زلزلوں میں تو بھرے شہر اُجڑجاتے ہیں

موسم درد میں اک دل بچاؤں کیسے
تیز آندھی میں تو خیمے بھی اکھڑ جاتے ہیں

سوچ کا آئینہ دھندلاہو تو پھر وقت کے ساتھ
چاند چہروں کے خدوخال بگڑ جاتے ہیں

شدتِ غم میں بھی زندہ ہوں تو حیرت کیسی؟
کچھ دیئے تند ہواوٗں سے بھی لڑ جاتے ہیں

وہ بھی کیا لوگ ہیں محسن جو وفا کی خاطر
خود تراشیدہ اُصولوں پہ بھی اَڑ جاتے ہیں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔