ہفتہ، 11 مئی، 2013

کل اور آج

کل بھی بوندیں برسی تھیں
کل بھی بادل چھائے تھے
اور کوئی نے سوچا تھا

بادل یہ آکاش کے سپنے ان زلفوں کے سائے ہیں
دوش ہوا پر میخانے ہی میخانے گھر آئے ہیں
رت بدلے گی پھول کھلیں گے جھونکے مدھ برسائیں گے
اُجلے اُجلے کھیتوں میں رنگین آنچل لہرائیں گے
چرواہے بنسی کی دھن سے گیت فضا میں بوئیں گے
آموں کے جھنڈوں کے نیچے پردیسی دل کھوئیں گے
پینگ بڑھاتی گوری کے ماتھے سے کوندے لپکیں گے
جوہڑ کے ٹھہرے پانی میں تارے آنکھیں جھپکیں گے
الجھی الجھی راہوں میں وہ آنچل تھامے آئیں گے
دھرتی، پھول ، آکاش ، ستارے سپنا سا بن جائیں گے


کل بھی بوندیں برسی تھیں
کل بھی بادل چھائے تھے
اور کوئی نے سوچا تھا

2

آج بھی بوندیں برسیں گی
آج بھی بادل چھائے ہیں
اور کوئی اس سوچ میں ہے

بستی پر بادل چھائے ہیں پر یہ بستی کس کی ہے
دھرتی پر امرت برسے گا لیکن دھرتی کس کی ہے
ہل جوتے گی کھیتوں میں الہڑ ٹولی دہقانوں کی
دھرتی سے پھوٹے گی محنت فاقہ کش انسانوں کی
فصلیں کاٹ کے محنت کش غلّے کے ڈھیر لگائیں گے
جاگیروں کے مالک آکر سب پونجی لے جائیں گے
بوڑھے دہقانوں کے گھر ، بنیے کی قرقی آئے گی
اور قرضے کے سود میں کوئی گوری بیچی جائے گی
آج بھی جنتا بھوکی ہے کل بھی جنتا ترسی تھی
آج بھی رم جھم برکھا ہوگی کل بھی بارش برسی تھی

آج بھی بادل چھائے ہیں
آج بھی بوندیں برسیں گی
اور کوئی اس سوچ میں ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔