وہ اہلِ حال جو خود رفتگی میں آئے تھے
بلا کی حالتِ شوریدگی میں آئے تھے
کہاں گئے کبھی ان کی خبر تو لے ظالم
وہ بے خبر جو تیری زندگی میں آئے تھے
گلی میں اپنی گِلہ کر ہمارے آنے کا
کہ ہم خوشی میں نہیں سرخوشی میں آئے تھے
کہاں چلے گئے اے فصلِ رنگ و بُو وہ لوگ
جو زرد زرد تھے اور سبزگی میں آئے تھے
نہیں ہے جن کے سبب اپنی جانبری ممکن
وہ زخم ہم کو گزشتہ صدی میں آئے تھے
تمہیں ہماری کمی کا خیال کیوں آتا
ہزار حیف ہم اپنی کمی میں آئے تھے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں