شام تھی اور برگ و گُل شَل تھے مگر صبا بھی تھی
ایک عجیب سکوت تھا ایک عجب صدا بھی تھی
ایک ملال کا سا حال محو تھا اپنے حال میں
رقص و نوا تھے بے طرف محفلِ شب بپا بھی تھی
سامعۂ صدائے جاں بے سروکار تھا کہ تھا
ایک گماں کی داستاں برلبِ نیم وا بھی تھی
کیا مہ و سالِ ماجرا، ایک پلک تھی جو میاں
بات کی ابتدا بھی تھی بات کی انتہا بھی تھی
ایک سرودِ روشنی نیمۂ شب کا خواب تھا
ایک خموش تیرگی سانحہ آشنا بھی تھی
دل تیرا پیشۂ گلہ کام خراب کر گیا
ورنہ تو ایک رنج کی حالتِ بے گلہ بھی تھی
دل کے معاملے جو تھے ان میں سے ایک یہ بھی ہے
اک ہوس تھی دل میں جو دل سے گریز پا بھی تھی
بال و پرِ خیال کو اب نہیں سمت وسُو نصیب
پہلے تھی ایک عجب فضا اور جو پُر فضا بھی تھی
خشک ہے چشمۂ سارِ جاں زرد ہے سبزہ زارِدل
اب تو یہ سوچیے کہ یاں پہلے کبھی ہوا بھی تھی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں