بدھ، 26 فروری، 2014

مٹی گریز کرنے لگی ہے خیال کر از علی زریون

مٹی گریز کرنے لگی ہے خیال کر
اپنا وجود اپنے لیے تو بحال کر

تیرا طلوع تیرے سوا تو کہیں نہیں
اپنے میں ڈوب اپنے ہی اندر زوال کر

اوروں کے فلسفے میں ترا کچھ نہیں چھپا
اپنے جواب کے لیے خود سے سوال کر

پہلے وہ لا تھا مجھ سے الٰہی ہوا ہے وہ
لایا ہوں میں خدا کو خودی سے نکال کر

اس کارگاہ عشق میں سمتوں کا دکھ نہ پال
فکر جنوب اور نہ خوف شمال کر

خواہش سے جیتنا ہے تو مت اس سے جنگ کر
چکھ اس کا ذائقہ اسے چھو کر نڈھال کر

آیا ہے پریم سے تو میں حاضر ہوں صاحبہ
لے میں بچھا ہوا ہوں مجھے پائمال کر

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔