مٹی گریز کرنے لگی ہے خیال کر
اپنا وجود اپنے لیے تو بحال کر
تیرا طلوع تیرے سوا تو کہیں نہیں
اپنے میں ڈوب اپنے ہی اندر زوال کر
اوروں کے فلسفے میں ترا کچھ نہیں چھپا
اپنے جواب کے لیے خود سے سوال کر
پہلے وہ لا تھا مجھ سے الٰہی ہوا ہے وہ
لایا ہوں میں خدا کو خودی سے نکال کر
اس کارگاہ عشق میں سمتوں کا دکھ نہ پال
فکر جنوب اور نہ خوف شمال کر
خواہش سے جیتنا ہے تو مت اس سے جنگ کر
چکھ اس کا ذائقہ اسے چھو کر نڈھال کر
آیا ہے پریم سے تو میں حاضر ہوں صاحبہ
لے میں بچھا ہوا ہوں مجھے پائمال کر
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں