ہفتہ، 1 مارچ، 2014

میرا گاؤں جانے کہاں کھو گیا ہے


یہ شہرِتمنا یہ امیروں کی دنیا
یہ خود غرض اور بے ضمیروں کی دنیا
یہاں سکھ مجھے دو جہاں کا ملا ہے
میرا گاؤں جانے کہاں کھو گیا ہے

وہ گاؤں کے بچے، وہ بچوں کی ٹولی
وہ بھولی، وہ معصوم چاہت کی بولی
وہ گُلی وہ ڈنڈا وہ لڑنا جھگڑنا
مگر ہاتھ پھر دوستی سے پکڑنا
وہ منظر ہر اک یاد پھر آ رہا ہے
میرا گاؤں جانے کہاں کھو گیا ہے

وہ چوپال وہ نانی اماں کے قصے
وہ گیتوں کی گنگا، وہ ساون کے جھولے
وہ لٹتا ہوا پیار وہ زندگانی
ہے میرے لئے بُھولی بسری کہانی
چھلکتی ہیں آنکھیں، یہ دل رو رہا ہے
میرا گاؤں جانے کہاں کھو گیا ہے

یہ چاندی، یہ سونا، یہ ہیرے یہ موتی
تھی انمول ان سب سے اک سوکھی روٹی
جو میں نے گنوایا نہ کوئی گنوائے
کہ گھر چھوڑ کوئی نہ پردیس آئے
ملے گا نہ اب وہ جو پیچھے لٹا ہے
میرا گاؤں جانے کہاں کھو گیا ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔