منگل، 27 مئی، 2014

شیشے دلوں کے گردِ تعصب سے اَٹ گئے

شیشے دلوں کے گردِ تعصب سے اَٹ گئے
روشن دماغ لوگ بھی فرقوں میں بٹ گئے

اظہار کا دباؤ بڑا ہی شدید تھا
الفاظ روکتے ہی مرے ہونٹ پھٹ گئے

بارش کو دشمنی تھی فقط میری ذات سے
جونہی مرا مکان گرا ، اَبر چَھٹ گئے

دھرتی پہ اُگ رہی ہیں فلک بوس چمنیاں
جن سے فضائیں عطر تھیں وہ پیڑ کٹ گئے

سپرا پڑوس میں نئی تعمیر کیا ہوئی
میرے بدن کے رابطے سورج سے کٹ گئے

2 تبصرے:

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔