منگل، 3 جون، 2014

ہر بے زباں کو شعلہ نوا کہ لیا کرو

ہر بے زباں کو شعلہ نوا کہ لیا کرو
یارو سکوت ہی کو صدا کہ لیا کرو

خود کو فریب دو ، کہ نہ ہو تلخ زندگی
ہر سنگ دل کو جانِ وفا کہ لیا کرو

گر چاہتے ہو خوش رہیں کچھ بندگانِ خاص
جتنے صنم ہیں ان کو خدا کہ لیا کرو

انسان کا اگر قد و قامت نہ بڑھ سکے
تم اُس کو نقصِ آب و ہوا کہ لیا کرو

اپنے لیے اب ایک ہی راہِ نجا ت ہے
ہر ظلم کو رضائے خدا کہ لیا کرو

لے دے کہ اب یہی ہے نشانِ ضیا قتیلؔ
جب دل جلے تو اُس کو دیا کہ لیا کرو

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔