بدھ، 20 اگست، 2014

وقت کی عمر کیا بڑی ہو گی

وقت کی عمر کیا بڑی ہو گی
اک ترے وصل کی گھڑی ہو گی

دستکیں دے رہی ہے پلکوں پر
کوئی برسات کی جھڑی ہو گی

کیا خبر تھی کہ نوکِ خنجر بھی
پھول کی اک پنکھڑی ہو گی

زلف بل کھا رہی ہے ماتھے پر
چاندنی سے صبا لڑی ہو گی

اے عدم کے مسافرو ہشیار
راہ میں زندگی کھڑی ہو گی

کیوں گرہ گیسوؤں میں ڈالی ہے
جاں کسی پھول کی اڑی ہو گی

التجا کا ملال کیا کیجئے
ان کے در پر کہیں پڑی ہو گی

موت کہتے ہیں جس کو اے ساغر
زندگی کی کوئی کڑی ہو گی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔ جیسے دوسرے تمام بلاگز کے محفوظ ہوا کرتے ہیں۔